پی ٹی آئی قیادت میں تقسیم، اندرونی چپقلش، فیصلہ سازی کے فقدان اور حکومت کی جانب سے دھلائی اور ٹھکائی کے بعد اب شرپسند یوتھیے تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست سے بھاگنے لگی اس کی عملی صورت 16 اکتوبر کو بھی دیکھنے میں آئی جب پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ملک بھر میں احتجاج کے حوالے سے دی جانے والی کال اور بلند و بانگ دعووں کے باوجود جمعے کی شام تک کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ سکا۔ پولیس اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے دھلائی کے خوف سے یوتھیے تو ایک طرف پارٹی کے مرکزی رہنما بھی بلوں میں چھپے بیٹھے رہے کوئی بھی مرکزی رہنما مقررہ جائے احتجاج پر نہیں پہنچا۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی یہ کال مجوزہ آئینی ترامیم اور عمران خان کی قید کے خلاف دی گئی تھی اور پی ٹی آئی قیادت نے کارکنان کو ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کرنے کی ہدایت کی تھی۔
لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دن دو بجے لبرٹی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن سہ پہر کو پی ٹی آئی نے یہ مقام بدل کر مال روڈ پر جی پی او چوک پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم وہاں شام ساڑھے پانچ بجے تک صرف تین خواتین بغیر کسی پرچم اور پوسٹر کے پہنچیں، جنہیں پولیس نے فورا حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب فیصل آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بھی کوئی درجن بھر لوگ شریک ہوئے اور وہ بھی زیادہ دیر تک اپنا احتجاج جاری نہ رکھ سکے۔ اسی طرح صوبے کے بعض بڑے شہروں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ٹولیوں کی صورت میں احتجاج کرنے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم تحریک انصاف کسی بھی شہر میں کوئی بڑا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی۔
موجودہ صورتحال سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر تحریک انصاف کے کارکن کیوں باہر نہیں نکلے؟ مبصرین کے مطابق اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ تحریک انصاف کی احتجاج کی اس اپیل پر کوئی اچھا رد عمل دیکھنے میں نہیں آ سکا، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی کی قیادت سامنے آنے سے گریزاں ہے ایسے میں صرف کارکنان کا سڑکوں پر آنا ممکن دکھائی نہیں دیتا دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں احتجاج کے لیے دی جانے والی پی ٹی آئی کی اس کال سے پہلے پنجاب حکومت نے دفعہ 144 لگا کر صوبے بھر میں احتجاج کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر پنجاب حکومت نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی بند کر دیا تھا۔
احتجاج کی اس کال سے پہلے پنجاب کے بڑے شہروں میں پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے متعدد ارکان پارلیمنٹ کے رشتہ داروں کے اٹھائے جانے کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہی ہیں۔جمعے کو صبح سے ہی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے راستے بند کیے گئے تھے۔ لاہور شہر کی اہم سڑکوں پر پولیس کے مسلح اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ لاہور کے لبرٹی چوک اور جی پی او چوک کو پولیس نے گھیرے میں لیے رکھا اور وہاں قیدیوں کو لے جانے والی بسیں اور واٹر کینن گاڑیاں بھی وہاں موجود تھیں۔ ایسے میں کارکنان کا احتجاج کیلئے سڑکوں پر نکلناناممکن ہو جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کھ بقول مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال پر کارکنوں کا رد عمل کافی مایوس کن رہا۔ ان کا کہنا تھا، ”ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی پہلے اور دوسرے نمبر کی قیادت یا تو گرفتار ہے اور یا روپوش ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہاں احتجاج اور جلسے کی کامیابی کے لیے دوسرے صوبوں کے لوگ درکار ہوتے ہیں۔ ‘‘
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔’ان میں اس وقت دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک گروپ احتجاج کے حق میں نہیں ہے جبکہ جیلوں میں بیٹھے اور روپوش پی ٹی آئی لیڈروں کا گروپ اپنی مشکلات کے ازالے کے لیے عوامی احتجاج کا متمنی ہے۔ ‘‘
سلمان غنی کے خیال میں اس احتجاجی کال کی ناکامی کی ایک اور وجہ بغیر تیاری کے احتجاج کی کال دینا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹ بنک کو موبلائز کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی اور ان کے کارکنوں کے منظم نہ ہونے کی وجہ سے اس پارٹی کی سیاست کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے دباؤ ڈالنے کی اہلیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ بات درست نہیں کہ لوگ پولیس کے خوف سے باہر نہیں نکلے۔سلمان غنی کا کہنا تھا، ”ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھا ہے کہ سیاسی کارکن ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے احتجاج کے لیے باہر نکلتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اپنی صفوں میں اتحاد لانے کی ضرورت ہے۔ اسے سمجھنا چاہیے کہ اگر آئینی ترامیم کا معاملہ اسلام آباد میں ہے تو پھر اس احتجاج کو اضلاع تک لانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘