اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون اجلاس نے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے مابین سرد مہری کا خاتمہ کیا ہے بلکہ اسے تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے اس کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ عالمی سفارتی محاذ پر پاکستان اب بھی بطور ایک اہم پلئیر کردار ادا کر سکتا ہے۔
اس اجلاس کے انعقاد کے لیے ایک طرف سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے اور دوسری جانب پاکستان کے دفتر خارجہ کی کوشش تھی کہ تمام رکن ممالک سے حکومتی سربراہان یا سینیئر ترین وزرا اس میں شرکت کریں۔
اس اجلاس میں روس، ایران، انڈیا، اور وسطی ایشیائی ممالک کے وزرا، سربراہان اور وزرائے اعظم نے شرکت کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اس اجلاس کے ذریعے یہ پیغام بھی دیا کہ وہ اس خطے میں ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز بن سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ اس کےلیے پاکستان کے اندرونی حالات کو بہتر بنانا ہوگا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اپنے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے علاوہ اپنے اندرونی مسائل حل کر لیتا ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو جاتا ہے تو وہ خطے میں اہم ترین اکنامک پلئیر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انڈین وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر کی شرکت کو بھی اس اجلاس کا اہم حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک دہائی میں کسی اعلیٰ انڈین عہدیدار کا پاکستان کا پہلا دورہ تھا، جس نے دونوں ممالک کے تعلقات پر نئی بحث کو جنم دیا۔
اجلاس سے قبل انڈین وزیر خارجہ نے یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ پاکستان صرف ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کےلیے آ رہے ہیں اور اس کا مقصد دو طرفہ تعلقات کی بحالی نہیں۔ اجلاس کے دوران اپنی تقریر میں انڈین وزیر خارجہ نے براہ راست پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کا الزام تو نہیں لگایا تاہم ڈھکے چھپے الفاظ میں اس جانب اشارہ ضرور کیا۔ انھوں نے کہا کہ اجلاس میں رکن ممالک ایک مشکل وقت میں مل رہے ہیں جب دنیا میں دو بڑے تنازعات جاری ہیں۔ جے شنکر نے کہا کہ ’ایس سی او کے چارٹر میں چیلنجز واضح ہیں اور وہ تین ہیں: دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کی روک تھام۔‘
جے شنکر کے مطابق ایس سی او کا مقصد باہمی اعتماد، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو مضبوط بنانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر اعتماد کی کمی ہے یا تعاون ناکافی ہے، اگر دوستی میں کمی ہے اور اچھی ہمسائیگی کہیں ناپید ہو چکی ہے تو یقیناً خود احتسابی کی ضرورت ہے۔‘ انڈین وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر دوسرے ممالک سے دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو ایسے ماحول میں تجارت، توانائی اور باہمی رابطے کا فروغ ناممکن ہے۔
شنگھائی اجلاس کے دوران مقامی میڈیا سمیت بعض انڈین نیوز چینلز نے بھی یہ دعوی کیا کہ پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کی انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات ہوئی۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ملاقات میں کرکٹ ڈپلومیسی پر بات کی گئی جس کا تعلق پاکستان میں آئندہ برس ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں انڈیا کی شرکت سے ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا اور کھانے کی میز پر بھی پاکستان کے وزیر خارجہ، انڈین وزیر خارجہ سمیت تمام مہمانوں کا انفرادی طور پر شکریہ ادا کرتے رہے۔
اسحاق ڈار اور جے شنکر کی گفتگو کو انڈیا اور پاکستان کے مابین برف پگھلنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ انڈیا پاکستان پر سرحد پار سے دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے۔ انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔
تاہم تجزیہ کار عامر ضیا کہتے ہیں کہ ’انڈین وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ وہ صرف ایس سی او کے اجلاس کےلیے آئے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ انڈیا فی الوقت پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا کے 5 اگست 2019 کے اقدامات نے دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات کی بحالی کے امکانات کو ختم کر دیا۔‘
لیکن سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین کے مطابق انڈیا اور پاکستان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ اور الزام تراشی نہ ہونا ایک مثبت پیشرفت تھی جس پر پہلے سے ہی اتفاق ہو گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر خارجہ اور جے شنکر کے مابین خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے جس سے پاکستان اور بھارت کے مابین سرد مہری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات دونوں ملکوں کے لیے مستقبل میں بات چیت کا راستہ کھول سکتی ہے۔‘
لیکن عامر ضیا کا کہنا ہے کہ ’انڈین وزیر خارجہ کا استقبال، اسحٰق ڈار سے ان کا مصحافہ یا مسکراہٹوں کا تبادلہ دراصل بنیادی میزبانی کے بنیادی فرائض ہیں، ان کا اس سے زیادہ کچھ اور مطلب نکالنے کی ضرورت نہیں۔‘