لندن میں مقیم میرے ایک پاکستانی دوست نے مجھے رات کے کھانے کے لئے ہوٹل پر بلایا۔ ہم نے ایک ساتھ کھانا کھایا، اس نے بتایا کہ میرے والد پاکستان میں حاضر سروس جج ہیں، اور فیملی کے کچھ لوگ سیاست میں بھی ہیں۔ میں نے بھی دوست کو بتایا کہ میں بھی پاکستانی سیاست میں بہت گہری دلچسپی رکھتا ہوں۔ گپ شپ کرتے ہوئے سیاست کی طرف نکل پڑے۔ میرے دوست نے اپنے والد کو کال کی، میرا تعارف کروایا اور مجھ سے بھی بات کروائی۔ حال احوال کیا۔ بہرحال میں نے انکل سے پوچھا کہ آپ حاضر سروس جج ہیں۔ آپ عمران خان کے موجودہ سٹیٹس کو کیسے دیکھتے ہیں۔ کیا عمران خان رہا ہو پائیں گے۔؟ہم تو جس دن سے عمران خان گرفتار ہوئے ہیں اسی دن سے سوشل میڈیا پر چند دنوں میں رہائی کی خبریں سن رہے ہیں، بلکہ بڑے وثوق کے ساتھ کہا گیا کہ عید تک خان صاحب رہا ہو جائیں گے، پھر کہا گیا کہ اپریل کا مہینہ ختم ہونے سے پہلے خان صاحب کی رہائی عمل میں آ جائے گی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ اس کے بر عکس خود عمران خان نے کہا کہ ان کی رہائی اگست ستمبر سے پہلے ممکن نہیں، اب اگست بھی شروع ہو چکا ہے اور ایک سال مکمل ہو گیا ہے، لیکن موجودہ حالات کے مطابق کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان جلد رہا نہیں ہوں گے۔
گزشتہ روز برطانوی نشریاتی ادارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اسی حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے کہ کیا عمران خان رہا ہو پائیں گے۔؟ قانونی ماہرین کے مطابق مستقبل قریب میں اسکے امکانات بہت کم ہیں۔ عمران خان کو کئی مقدمات میں ملنے والی سزائیں معطل یا ختم کروانے کے لیے بھی انِہی عدالتوں میں جانا پڑے گا۔ بدلی صورتحال کا سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے عدالتوں میں کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں اس لیے بھی مشکلات کا سامنا ہو گا کہ وہ کئی مقدمات جیسے سائفر کیس، توشہ خانہ یا اثاثہ جات کیس میں بظاہر غلطی تسلیم کرچکے ہیں۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی موجودگی سے اس حد تک فائدہ ضرور ہو گا کہ انٹرنیشنل فورمز پر سابق وزیراعظم کے حق میں آوازیں تواتر سے بلند ہوں گی اور اُن کیسز اور طریقہ کار پر بھی دوسری رائے سامنے آئے گی، جن کے تحت عمران خان کو سزائیں ہوئی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر اور آئینی قوانین کے ماہر وکیل نے کہا عمران خان کی سزا ختم ہونے اور جیل سے باہر آنے کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی جماعت مرکز میں حکومت بنا لے، اُن کا وزیراعظم بن جائے، وہ صدر کو ایڈوائس کرے کہ عمران خان کی سزائیں ’کمیوٹ‘ یعنی کم کر دی جائیں۔اس صورت میں عمران خان باہر تو آ جائیں گے لیکن لیگل سٹیٹس بری ہونے کا نہیں ہو گا۔ یعنی اخلاقی طور پر وہ عدالتی عمل سے گزرکر اور بری ہو کر رہائی نہیں پا رہے ہوں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ انکی جماعت کی حکومت بن جائے اور پھر وہ ادارے جو ان کے خلاف مقدمات میں استغاثہ ہیں وہ عدالتوں سے اپنے مقدمات یا درخواستیں واپس لے لیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی رہنماؤں کے کیسوں میں ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔ عمران خان کے جیل میں دیے گئے اس بیان سے کہ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے حالیہ مینڈیٹ کی وجہ سے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ گزشتہ روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ حکومت اور طاقتور حلقوں کی خواہش ہے کہ عمران خان کو پانچ سال کیلئے جیل میں ہی رکھا جائے، کیونکہ اگر عمران خان جیل سے باہر آتے ہیں تو پھر سے دھرنے اور لڑائیاں ہوں گی جس کا پاکستان موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے اصلی حکمران جس کو بھی چُن کر اسلام آباد میں اقتدار دیتے ہیں اُس سے اُن کا جی بھرنے میں دو تین سال کا وقت لگتا ہے۔ اُن کی سچی محبت بھی دو تین سال کے بعد بیزاری میں بدل جاتی ہے، مگر یہ بیزاری دشمنی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ فائلیں ہر وقت تیار رہتی ہیں، گواہ ڈھونڈنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، جج رات گئے تک عدالتیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور سزائیں اس طرح سُناتے ہیں جیسے آج ہی فیصلہ نہ سُنایا تو شاید رات کو نیند نہ آئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق عمران خان پر درجنوں مقدمات ہیں، ان پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو وہ دہشت گرد بھی ہیں، کرپٹ بھی ہیں، چور بھی ہیں، ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرہ بھی ثابت ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انھوں نے ملک سے غداری کی ہے۔ ایک کیس ایسا بھی چل رہا ہے جس میں اُن کے آخری نکاح کو مبینہ طور پر عدت کے دوران ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے جیل میں ڈالنے والوں اور ان کے سابقہ قیدیوں نے کچھ ایسا معاہدہ کیا ہو کہ اس دفعہ ہم آپس میں نہیں لڑیں گے اور عمران خان کو نہ صرف جیل میں رکھیں گے بلکہ نہ اس کی آواز، نہ اس کی تصویر کبھی باہر آنے دیں گے۔ جیل کے سیل سے نکال کر جیل میں لگی عدالت میں پیش کریں گے اور دس، بیس، تیس ہزار سال کی سزا دلوائیں گے۔ ایک اور بات کہ جب سے عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں سکیورٹی کے نام پر منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی قیادت امریکہ سرکار کے پاوُں پڑی ہوئی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے تحریک انصاف کی قیادت کا مسلسل امریکن سفیر سے ملاقاتیں کرنا یقیناً کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عمران خان اپنے دور میں حزب اختلاف کا غیر ملکی سفیروں سے ملنا حب الوطنی کے حوالے سے مشکوک سمجھتے تھے، لیکن بات وہی ہے کہ ”کیا عمران خان رہا ہو پائیں گے“۔