بانی پی ٹی آئی عمران خان کے پابند سلاسل ہونے کے بعد سے انتشار کا شکار تحریک انصاف میں گزستہ چند ایام سے دھڑے بندی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں جہاں ایک طرف بشری بی بی گروپ پارٹی پر قبضے کی کوششوں میں مصروف ہے وہیں دوسری جانب علیمہ خان گروپ نے بھی معاملات اپنے کنٹرول میں لینے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دئیے ہیں۔
مبصرین کے مطابق گذشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی کے مختلف دھڑے آپس میں برسرپیکار ہیں۔ یہاں تک کہ پارٹی کے مرکزی رہنما بھی پارٹی کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے نظر آتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی میں دھڑے بندی کی خبریں کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب پارٹی اپنے جوبن پر تھی تو شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، بشری بی بی، علیمہ خان، اسد قیصر اور میاں اسلم سمیت کئی رہنما اپنا مخصوص اثر ورسوخ رکھتے تھے جو بعد میں عیاں بھی ہوا۔ اور اب جب تحریک انصاف کی قیادت زیرِعتاب ہے تو ان دھڑوں کی ایک نئی جہت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس وقت وزیراعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور ایک فیصلہ کن حیثیت سے پارٹی کے معاملات چلا رہے ہیں جبکہ ایک دھڑا شیر افضل مروت کا ہے جو اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتے ہے۔ اپنی باغیانہ روش کی وجہ سے انھیں پارٹی کی کمیٹیوں سے بھی نکالا جا چکا ہے تاہم وہ پھر بھی خیبرپختونخوا حکومت سمیت پارٹی کے کمپرومائزڈ رہنماؤں کو ہدف تنقید بنانے سے باز نہیں آتے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے سابق رہنما فواد چوہدری بھی ان دنوں ایک بار پھر متحرک نظر آتے ہیں اور انھوں نے بھی تحریک انصاف کے مرکزی رہنماوں کو نشانے پر لیتے ہوئے پارٹی کے معاملات پر کھل کر بولنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بشری بی بی اور علیمہ خان کو مشورہ دیا ہے کہ پارٹی کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لیں۔
گزشتہ کچھ دنوں سے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور فواد چودھری کے بھائی فیصل چوہدری کے مابین چپقلش بھی زوروں پر تھی۔ سلمان اکرم راجہ جو پی ٹی آئی میں انتخابات سے کچھ عرصہ قبل شامل ہوئے ہیں اور عمران خان کے وکیل بھی ہیں، انہوں نے وکلا کے پینل سے فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری کو بھی نکال دیا تھا۔ تاہم بعدازاں یہ خبریں سامنے آئیں کہ عمران خان نے دونوں کی صلح کروا دی ہے۔ فیصل چوہدری پر الزام تھا کہ وہ فواد چوہدری کی واپسی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور ان کی بہنوں کی رہائی کے بعد یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اندر خانے نند اور بھابھی کے مابین پارٹی پر قبضے کی جنگ جاری ہے جس کیلئے دونوں اطراف سے اپنے پتے پھینکے جا رہے ہیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ بشری بی بی پیچھے رہ کرپارٹی کے معاملات ضرور دیکھیں گی کیونکہ انھیں اس وقت پارٹی قائد کی مکمل تائید حاصل ہے۔
مبصرین کے مطابق26 ویں آئینی ترمیم میں پیش آنے والے واقعات کے بعد شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی بھی پارٹی میں ایک نئے دھڑے کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں حماد اظہر اور میاں اسلم کے دونوں دھڑوں کی لڑائی خود حماد اظہر نے نام لیے بغیر سوشل میڈیا پر بیان کی جو آج بھی ویسی ہے۔
آخری دھڑا بیرون ملک مقیم پاکستان تحریک اںصاف کے رہنماؤں کا ہے جن میں ڈاکٹر شہباز گل سرفہرست ہیں۔ سینئر اینکر پرسن اجمل جامی کے مطابق ’تحریک انصاف کے اندر اس وقت جو سب سے زیادہ مسئلہ ہے وہ ایک دوسرے پر اعتماد کی کمی ہے۔ ہر رہنما دوسرے کو چور نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر لیڈر اب اپنے اپنے دھڑے کو تگڑا کر رہا ہے اور خود کو دوسروں سے زیادہ پارٹی کا وفادار ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی قیادت میں بداعتمادی ایک منظم طریقے سے پیدا کی جا رہی ہے یا یہ ایک قدرتی عمل ہے۔ خود پارٹی کے اندر لوگ اس کو منظم طریقے سے جوڑ رہے ہیں۔ جو لڑائی قیادت میں دکھائی دے رہی ہے وہی لڑائی تحریک انصاف کا بیانیہ چلانے والے یوٹیوبرز میں بھی نظر آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو ٹاؤٹ کہ کر پکارا جا رہا ہے، الزامات لگائے جا رہے ہیں۔‘
تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی سمجھتے ہیں کہ ’دھڑے بندیوں کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ اب بشری بی بی جب معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں گی اور سب کو پتہ ہے کہ ان کا فیصلہ آخری ہو گا کیونکہ وہ عمران خان کے بہت قریب ہیں۔ ان کو طاقتور ہوتا دیکھنا کئی لوگوں کو پسند نہیں آئے گا اور پارٹی کے اندر اقتدار کی نئی جنگ شروع ہو گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’اسٹیبلشمنٹ یہی چاہتی تھی کہ یہ پارٹی منظم نہ رہے اور میرے خیال میں اب ایسا ہو چکا ہے اور اس کو سنبھالنا اب مشکل ہے۔