26ویں آئینی ترمیم پر پچھلے دو ماہ سے مولانا کو اپنا امام ڈیکلئیر کرتے ہوئے مجوزہ ترامیم سے قابل اعتراض شقیں نکلوانے کے عوض اپنی حمایت کا یقین دلوانے والی تحریک انصاف اپنے بانی کی طرح آخری لمحات میں اچانک یو ٹرن لے کر مولانا کے ساتھ ہاتھ کر گئی اور بل کی مخالفت کر دی۔ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ بل کی مخالفت کا فیصلہ عمران خان نے اڈیالہ جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران سنایا حالانکہ برسٹر گوہر خان نے انہیں راضی کرنے کی کافی کوشش کی۔
باخبر ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان کسی صورت بھی آئینی ترامیم پر حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے اور بل منظور نہیں ہو سکے گا، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ اتحادی حکومت نے مولانا کی ہر تجویز مان لی ہے اور مجوزہ ترمیمی مسودے پر اتفاق ہوگیا ہے تو حسب رویت یو ٹرن لے لیا گیا۔
یاد ریے کہ 26ویں ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے سید خور شید احمد شاہ کی سر برا ہی میں قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں با قاعدگی سے شرکت کرنے اور جے یو آئی ف کے سر براہ مولانا فضل الر حمان کے ساتھ تواتر سے ملاقاتوں کے بعد اتوار کے روز عین بل کی منظوری کے دن تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے یہ حیران کر دینے والا اعلا میہ جاری کیا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر رائے شماری کے عمل کا مکمل بائیکاٹ کیا جا ئے گا۔ سیاسی کمیٹی نے یہ موقف اختیار کیا کہ مجوزہ ترمیمی بل دراصل عدلیہ کی ازادی سلب کرنے اور اسے پارلیمنٹ کا غلام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ تاہم یہ اعتراض کرتے وقت تحریک انصاف کی قیادت بھول گئی کہ 1973 کے آئین کے مطابق 25 کروڑ عوام کی منتخب پارلیمنٹ ہی سپریم ہوتی ہے اور باقی تمام ادارے اس کے تابع ہوتے ہیں۔
سیاسی حلقے پی ٹی آئی کی اس سیا سی قلابازی پر دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اس مرحلے پر بائیکاٹ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ سیاسی کمیٹی نے بائیکاٹ کا جواز یہ بنایا ہے کہ پارلیمینٹ کے پاس آئین کو بدلنے کا کوئی جواز نہیں اور ترامیم کے ذریعے حکومت جنگل کے قانون کو نافذ کرنا اور جمہوریت کو زندہ درگور کرنا چاہتی یے۔ تاہم یہ اعتراض کرتے وقت بھی پی ٹی ائی بھول گئی کہ عمران خان کے پچھلے دور حکومت میں سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 50 منٹ میں 50 آئینی ترامیم بزور طاقت منظور کروائی تھیں۔ تب کپتان حکومت کا یہ موقف تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور قانون سازی اس کا بنیادی حق ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی تھی کہ حکومت کو آئین بدلنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر پارٹی چئیرمین بیرسٹر گوہر خان، عمرا یوب خان اور ملک عامر ڈوگر ترامیم کے کیے بنائی جانے والی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاسوں میں کیوں شریک ہوتے رہے؟ انکی جانب سے حکومتی مسودہ کیوں مانگا گیا اور مشورے کیوں دیے گئے؟ سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی ائی کی قیادت کی جانب سے پچھلے دو ماہ میں مولانا فضل الرحمان کے ساتھ تر میمی مسودہ پر مسلسل مشاورت کیوں کی گئی؟ یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو کی مداخلت پر ہی تحریک انصاف کے رہنماؤں کو آئینی ترامیم کی حتمی منظوری لینے کے لیے اڈیالہ جیل میں قید عمران خان سے ملاقات کا موقع دیا گیا جس نے سارا کھیل چوپٹ کر دیا اور پی ٹی ائی قیادت ایک مرتبہ پھر اپنے بانی کی یرغمالی بن گئی۔ جیل ملاقات کے دوران عمران نے کسی کی ایک نہ سنی اور ترمیمی عمل کے بائیکاٹ کا فیلصہ سنا دیا۔