اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑنے کے فیصلے کو ایک شاطرانہ ماسٹر سٹروک قرار دیا جا رہا ہے تاکہ اس سے سیاسی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔ عمران کی جانب سے چانسلر کا الیکشن لڑنے کی درخواست مقررہ مدت کے آخری دن یعنی 18 اگست کو جمع کروائی گئی جس کا اعلان خان کے مشیر زلفی بخاری نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کیا تھا۔
زلفی کے مطابق ’عمران خان کی ہدایات کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب کے لیے ان کی درخواست جمع کروا دی گئی ہے۔ ان کے مقابلے میں برطانیہ کے دو سابق وزرائے اعظم ٹونی پلیئر اور بورس جانسن بھی اس عہدے کے امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے عمران کے اس فیصلے کے پیچھے کاربند عوامل یا مقصد کی نشان دہی نہیں کی گئی لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر عمران یہ الیکشن جیت جاتے ہیں تو انہیں اس کا فائدہ ہوگا کیونکہ اسکے سیاسی اور سفارتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10 سال کے لیے ہوگی تاہم یہ ایک اعزازی منصب ہے، یعنی تنخواہ اور مراعات نہیں ہوتے لیکن چانسلر پر کوئی کی انتظامی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی۔ تاہم آکسفورڈ کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے اور مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار اہم ہوتا ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آکسفورڈ چانسلر کے لیے برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں البتہ تمام اہم تقریبات میں شرکت لازمی ہے جس کے لیے سفری اخراجات یونیورسٹی ادا کرتی ہے۔
نئے چانسلر کے انتخاب کے لیے یونیورسٹی کی کونسل ’چانسلر الیکشن کمیٹی‘ تشکیل دیتی ہے جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتی۔ عمران کے لیے اس مقابلے میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں ایک حالیہ ترمیم کے بعد ممکن ہوا ہے جس کے مطابق یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ اور عملے کے موجودہ اور سابقہ ارکان اب اپنا ووٹ آن لائن دے سکیں گے۔ اس حلقۂ انتخاب کو ’کانووکیشن‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے امیدواروں اور ووٹروں کے لیے کانووکیشن میں ذاتی طور پر حاضری لازمی ہوا کرتی تھی۔ لیکن اب ان لائن ووٹنگ سسٹم کے نتیجے میں دنیا بھر سے ڈھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائے گی، اور ووٹنگ کا عمل 28 اکتوبر سے شروع ہوگا۔
اہم بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں موجودہ طالبعلم، یونیورسٹی ملازمین یا کسی سیاسی عہدے کے امیدوار حصہ نہیں لے سکتے۔ یاد رہے کہ چانسلر کرسٹوفر فرانسس پیٹن 2003 سے اس عہدے ہر تعینات تھے جنھوں نے 31 جولائی کو استعفی دیا۔ عمران نے 1972 میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج میں داخلہ لیا اور 1975 میں سیاسیات، فلسفے اور معاشیات میں گریجویشن کی سند حاصل کی تھی۔ اس دوران انھوں نے کرکٹ کے میدان میں یونیوسٹی کے لیے کئی اعزاز جیتے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عمران کے حامیوں کا خیال ہے کہ سابقہ تجربے، یونیورسٹی آف آکسفرڈ سے دیرینہ تعلق، قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوامی فلاح کے کام اور کرکٹ کی دنیا میں شہرت انھیں چانسلرشِپ کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان کے لیے پہلے بھی دو تین بار اس عہدے کے لیے کوششیں کی جا چکی ہیں لہازا اگر ان حالات میں عمران کو آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی کی چانسلرشپ مل جاتی ہے تو ان کے لیے دنیا بھر میں ہمدردی پیدا ہو سکتی یے۔
لیکن پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ’عمران اگر آکسفورڈ کے چانسلر بن جاتے ہیں تو ان کے لیے اس رول میں کام کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ابھی وہ جیل میں ہیں اور انھیں سنگین نوعیت کے کیسز سامنا ہے۔ اس کے علاوہ اگر انہیں کسی کیس میں حتمی سزا ہو جاتی ہے تو پھر وہ چانسلر کا الیکشن لڑنے کے اہل بھی نہیں رہیں گے۔ سفارتی تعلقات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’برطانیہ کسی سیاسی رہنما کی وجہ سے ریاستی یا سفارتی تعلقات پر حر ف نہیں آنے دیتا البتہ سول سوسائٹی یا عوام کی حد تک عمران خان کے حق میں سامنے آنا اور بات ہے۔‘
عبدالباسط کے مطابق ’امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی حکومتوں نے عمران خان کی گرفتاری اور ان کے مقدمات سے متعلق زیادہ توجہ نہیں دی ہے۔‘ ان کی رائے میں ’عمران خان کا بھی بنیادی مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ اس طریقے سے سیاسی سکورنگ کرنا چاہتے ہیں اور سب کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جیل میں رہ کر بھی کتنے مقبول ہیں کہ دنیا کی ایک بہترین یورنیورسٹی نے انھیں اپنا چانسلر چنا ہے۔‘ تاہم ان کے مطابق ’ابھی تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ آکسفورڈ کے اصول و ضوابط اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جیل میں بند کریمینل کیسز کا سامنا کرنے والا کوئی شخص اس کا چانسلر بن سکلتا ہے یا نہیں؟