اپنے دور اختیار میں ریاست کی بجائے عمران خان سے وفاداری نبھانے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ان کے اداروں میں بچھائے گئے نیٹ ورک کو اکھاڑنے کا کام تیزی سے اپنے آخری مراحل میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا یے۔ جس کے تحت عسکری و سول حکام کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی و سکیورٹی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فیض حمید کے بعد تین مزید ریٹائرڈ افسران کو فوجی تحویل میں لیے جانے کی وجہ ان کی طرف سے طاقت کا ناجائز استعمال یا بدعنوانی نہیں بلکہ اس کی وجہ کچھ اور ہی ہے۔
فیض حمید کے خلاف کرپشن کا کیس تو ایک بہانہ ہے، اصل مسئلہ تو ان کے وہ رابطے تھے اور ان کا وہ کردار تھا، جس میں وہ پاکستان تحریک انصاف کو خفیہ طور پر بڑھاوا دینے کی کوشش کر رہے تھے، جس کی وجہ سے فوج کے اندر بھی ایک ہلچل پیدا ہو گئی تھی۔ آئی ایس پی آر کا بیان بھی اس دلیل کی غمازی کرتا ہے کیونکہ اس میں کہا گیا تھا کہ فیض حمید بدعنوانی کے کیس کے علاوہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔”قانون کا اصل ہاتھ صرف فیض حمید کی گردن تک ہی نہیں بلکہ عمران خان کی گردن تک پہنچے گا۔‘‘
پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ناقدین بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی ملکی سیاست میں مداخلت کرتی ہے۔ فیض حمید عمران خان کے دور اقتدار میں سن 2019 تا سن 2021 اس خفیہ ایجنسی کے سربراہ تھے۔جب اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے فیض حمید کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے عہدے سے ہٹایا تھا تو تب وزیر اعظم عمران خان نے اصرار کیا تھا کہ وہ ایسا ہونا نہیں چاہتے۔پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھی اور سیاسی ناقدین کے بقول فیض حمید کی وجہ سے ہی عمران خان اور پاکستانی فوج کی اعلیٰ قیادت کے مابین اختلافات پیدا ہوئے، جس کی وجہ سے بالآخر عمران خان کو سن 2022 میں تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد فوج میں خود احتسابی کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے، پاک فوج نے اگر اپنے سابق اعلیٰ افسر کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس واضح ثبوت موجود ہیں۔ جنرل ریٹائرڈ فیض ٹاپ سٹی کیس میں تو ملوث ہیں ہی اس کے علاوہ فوج کا قانون یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے 2سال بعد تک کسی بھی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں ہوسکتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاک فوج کے پاس جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
فیض حمید کیخلاف انکواری آخری مراحل میں، مزید نام سامنے آئیں گے،فیض حمید نے جو کچھ کیا یہ سب کچھ نیٹ ورک کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا، جسے توڑا جارہا ہے۔ سات مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ جنرل فیض حمید کے خلاف انکوائری اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور جو شواہد اور ثبوت اس انکوائری کمیٹی نے اکٹھے کیے ہیں ا سکی بنیاد پر جنرل فیض حمید کو پہلے گرفتار کیا گیا اور اب مزید تین مزید افسران کو تحویل میں لیا گیا ہے۔ جنرل فیض کی گرفتاری کے بعد جنرل عاصم منیر کی سابق عسکری قیادت اور ریٹائرڈ جنرلز سے ملاقات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری کے بعد بھی جنرل سید عاصم منیر کو فوج کی سابق اعلیٰ افسران کی سپورٹ حاصل ہے اور پاک فوج پر جنرل سید عاصم منیر کی گرفت مضبوط ہے، اور جو قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ فوج کے سابق افسران جنرل سید عاصم منیر پر مکمل اعتماد نہیں کرتے تو اس ملاقات نے ان قیاس آرائیوں کو بھی دفنا دیا ہے۔