کاکول اور آرمی ٹریننگ سکول مائنڈ سیٹ کا جھگڑا کیا ہے؟

پاکستان کی گھمبیر سیاسی صورت حال میں اقتدار کا جھگڑا سیاسی سے زیادہ ‘ کاکولی مائنڈ سیٹ آفیسرز’ اور ‘آفیسرز ٹریننگ سکول منگلا’ کی سوچ کے تضادات کا ہے، جس میں جمہوریت پسند اس بات پر متفکر ہیں کہ عدالتی سہولت کاروں کی جانب سے آئین کی اپنی من مانی سے تشریح کرنے والوں اور انکے ساتھیوں سے جمہوری اداروں کو کیسے بچایا جائے۔

موجودہ سیاسی صورت حال میں طالبان کی دہشت گردی سمیت اعلی عدلیہ کی عمران خان کے لیے سہولت کاری کا جال بنیادی طور پر ‘ کاکولی مائنڈ سیٹ’ کی اشرافیہ کا ہے، جس کا مقابلہ ‘غیر کاکولی مائنڈ سیٹ’ جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر کر رہا ہے، یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پاکستان کے پہلے فوجی سربراہ ہیں جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے نہیں بلکہ آرمی ٹریننگ سکول منگلا سے فارغ التحصیل ہیں۔ عمران خان کاکولی مائنڈ سیٹ کے ساتھ مل کر عاصم منیر کی تقرری رکوانے کے لیے آخری حد تک گئے تھے لیکن کامیاب نہ ہو پائے۔

ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیائی جھوٹے پروپگنڈے نے لوگوں کو ایسا جکڑا ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے ہی دوستوں اور بہی خواہوں کو دشمن سمجھ بیٹھے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ‘دانشورانہ بددیانتی’ کوئی نیا حربہ نہیں۔ اس سے قبل بھی ‘دانشورانہ بددیانتی’ پاکستان کے ابتدائی ایام سے ہی شروع ہو چکی تھی، جس میں ایک جانب کمیونسٹ نکتہ نظر تھا کہ پاکستانی سماج کو عوام کے جمہوری حقوق بلا تعطل دیے جائیں اور سیاست کو ‘فوجی مداخلت’ سے دور رکھا جائے جبکہ دوسرا نکتہ نظر ‘برطانوی کاکولی اسٹیبلشمنٹ’ کا تھا کہ اس ریاست کو ‘سکیورٹی سٹیٹ’ بنایا جائے۔ فوج میں سپاہی سے لے کر افسران کی تربیت بھی خود کو ماورا قوت سمجھنے اور عام فرد یا سویلین کو ‘بلڈی سویلین’ سمجھنے کے نکتہ نظر سے دی جاتی رہی۔ برٹش رائل اکیڈمی کے تربیت یافتہ ‘ کاکولی مائنڈ سیٹ’ نے پاکستان کو سکیورٹی سٹیٹ رکھنے کے لئے تحریک پاکستان میں منفی کردار ادا کرنے والی مذہبی جماعتوں یعنی جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کی مدد حاصل کی، جس کا اجر ان جماعتوں کو آمر جنرل ضیاء کے دور میں ‘افغان جہاد’ کے نام پر مدارس کے لئے پلاٹ لینے اور امریکی ڈالر کی امداد نوازنے کے نتیجے میں نکلا۔ جہادی تناظر میں آج بھی یہی یہ جماعتیں ‘سکیورٹی سٹیٹ’ کے نکتہ نظر پر قائم ہیں جبکہ درونِ خانہ یہی قوتیں آج بھی جنرل حمید گل کے سدھائے گئے طالبان مائنڈ سیٹ ‘ عمران خان’ کی اتحادی ہیں۔

پی ٹی آئی کا ‘دانشورانہ بدیانتی’ پر مبنی یہ پروپیگنڈہ بھی غلط تاریخ کی بنیاد پر پھیلایا گیا ہے کہ صرف پی ٹی آئی ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک قوت بن کر ابھری ہے۔ اس جھوٹ کو عمران خان کے تین سالہ دورِ اقتدار میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے جب وہ ‘کاکولی اسٹیبلشمنٹ’ کے جاں نثار وکیل بنے ہوئے تھے اور آج بھی سیاسی قوتوں کے مقابل طالبان مائنڈ سیٹ والی ‘کاکولی اسٹیبلشمنٹ’ کے طرزِ فکر پر ملک کو چلانے کے لئے مختلف طریقوں سے ساز باز چاہتے ہیں۔ یہ بات غور طلب ہے کہ ‘تحفظِ آئین تحریک’ کے اتحاد میں شامل مذہبی جہادی جماعتیں اور ‘افغانیہ’ بنانے والی ‘اچکزئی’ قوتیں ہی کیوں متحرک ہیں، جبکہ ان میں سے بیشتر نے ملک کو پہلا آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف آرمی چیف جنرل ضیاء کے اشاروں پر 1977 کی تحریک چلا کر ‘نظامِ مصطفی’ کے نام پر عوام کو گمراہ کیا اور اس خطے میں امریکی مفادات کے لئے ‘طالبان دہشت گردوں’ کی کھل کر حمایت کی۔ اسی طرح کی کوشش آج بھی یہ جماعتیں ‘رپبلیکن پینٹاگون’ کی حمایت اور طالبان کی مدد سے عمران خان کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کر رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان کو مسلسل غیر مستحکم رکھنے کی ‘قسط دوم’ چلانے کی کوشش میں نظام مصطفی والی پرانی قوتوں کو ‘ عمران خان’ کا اتحادی بنایا گیا ہے تاکہ خطے کی سیاسی اور معاشی صورت حال کو خطے میں ممکنہ طور پر ابھرنے والے چین، روس، سعودی عرب اور ایران اتحاد سے دور رکھ کر اپنے سامراجی مفادات حاصل کیے جا سکیں۔

یہی وہ کوشش ہے جس میں پی ٹی آئی کے ‘بد دیانت دانشور’ عدلیہ اور میڈیا کو سہانے خواب دکھا کر اور عوام کو ‘اسٹیبلشمنٹ مخالف’ بیانیے کا لولی پوپ دے کر دوبارہ سے ‘ریپبلیکن پینٹاگون’ اور پاکستان کی ‘کاکولی اسٹیبلشمنٹ’ کو اقتدار کی ہما تھمانا چاہتے ہیں تا کہ خطے کی سیاست صرف اور صرف انتشار اور امریکی مفادات کے لیے جاری رہے۔ اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پروپیگنڈے کی تمام تربیت اور استعمال کی ٹریننگ باقاعدہ طور سے عمران خان کی پی ٹی آئی کو دی جاتی رہی جو آج تک بے سروپا ٹرینڈ بنانے اور منفی و لچر پروپیگنڈہ کرنے میں متحرک ہے، جس سے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا نمٹنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ فوج میں ‘سٹار جنرلز’ کے مابین اختیارات کی جنگ جنرل ایوب، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دور میں بھی ‘بغاوت’ کے نام پر جاری رہیں، مگر آج اختیارات کی جنگ ایک ایسے ‘نان کاکولین جنرل’ کے خلاف نظر آ رہی ہے جس کو ‘کاکولین طبقہ’ ہضم کرنے میں ‘طبقاتی کشمکش’ کا شکار ہے اور اس سلسلے میں مذکورہ طبقہ ‘ عمران خان’ کی انتشار پسند سیاست کے لئے متحرک ہو کر کبھی امریکن کانگریس، کبھی اقوام متحدہ اور کبھی ہاؤس آف لارڈز برطانیہ سے سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے نام پر قراردادیں منظور کروا کر عالمی دباؤ ڈال رہا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔

اس پیچیدہ سیاسی صورت حال میں سوال یہ نہیں کہ عمران خان کو کس نے لانچ کیا یا عمران خان کی منظرعام پر آنے والی مختلف حرکات، غیر سیاسی بیانات، توہین عدالت کے معاملات اور تاریخی حوالے کیوں عوام میں غیر سنجیدہ طریقے سے پھیلا کر انہیں بار بار بیل آؤٹ کیا جا رہا ہے؟ پی ٹی آئی کے ہر سیاسی عمل کے پس پردہ جنرل فیض حمید کی منصوبہ بندی اور کاکول مائنڈ سیٹ کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔اس سوال پر بھی ابتدا ہی سے سیاسی قیادت اور فوجی جنرلز کے درمیان تضاد رہا کہ یہ ملک جمہوری انداز سے چلے یا اسے سکیورٹی سٹیٹ بنایا جائے؟ جمہوری قوتیں ملک میں ہمیشہ جمہوری طرز حکمرانی پر زور دیتی رہیں جبکہ اقتدار کے خواہاں ‘کاکولی جنرلز’ کا مؤقف رہا کہ خطے کے حالات کے تناظر میں اسے ‘سکیورٹی سٹیٹ’ بنایا جائے۔ سیاست دانوں اور فوجی قیادت کے درمیان یہی وہ بنیادی تنازعہ تھا کہ جس نے ملک میں کم و بیش 24 برس آئین بننے نہ دیا، ملک کو دو لخت کیا گیا اور بعد میں فوجی قیادت نے اپنی ہم خیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ہمنوا بنا کر ‘نیم سکیورٹی سٹیٹ’ کے طور پر 1973 کے متفقہ آئین کو مجبوری میں قبول کیا۔ فوجی قیادت کی جانب سے 73 کے آئین کی کڑوی گولی کو 6 برس بھی برداشت نہ کیا گیا اور نظام مصطفی کی تحریک کے ذریعے جمہوری اور منتخب حکومت کی بساط جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگا کر لپیٹ دی اور 1979 میں جنرل ضیاء نے ملک میں امریکی حمایت میں افغانستان کے ‘انقلاب’ ثور کے خلاف پوری فوج میں جہادی مائنڈ سیٹ تیار کیا اور مذہبی جہادیوں کی فوج تیار کی جو آج بھی ‘دہشت گرد طالبان’ کی صورت میں پاکستان اور خطے کے لئے ایک خطرہ بنی ہوئی ہے۔

سکیورٹی سٹیٹ بیانیے کے ‘کاکولی وکیلوں’ نے ایم کیو ایم کے تجربے کے دوران ہی ‘فاشسٹ’ تربیت پر جماعت اسلامی فکر کے عمران خان کی سیاسی تربیت طالبان فکر کے جنرل حمید گل سے کروائی اور اقتدار کی سیاسی راہداریوں میں تحریک انصاف کی پہچان بھی کراتے رہے تا کہ جماعت اسلامی کی تنگ نظر مذہبی فکر سے نالاں نوجوانوں میں ماڈرن ‘ہیرو ورشپ’ کا تڑکا عمران خان کی صورت میں ڈالا جائے۔ سردست موجودہ سیاست میں جمہوریت کے مقابل سکیورٹی سٹیٹ بنانے کی کوششیں رکی نہیں ہیں، بلکہ موجودہ سیاسی ماحول میں ملکی سیاسی تاریخ سے بے خبر غیر سیاسی نسل کو ایک مرتبہ پھر ‘ہیرو ورشپ’ کے بخار میں مبتلا کر کے عمران خان کی مدد اور بیانیے سے ‘سکیورٹی سٹیٹ’ کے کمزور بیانیے کو مضبوط کرنے کی فاشسٹ طرز پر وہ خطرناک کوشش جاری ہے۔ اس پوری ہنگامہ خیز سیاسی صورت حال میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیوں اور کن مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے عمران خان کو سیاست میں لایا گیا۔

دراصل عمران خان کو اس کاکولی مائنڈ سیٹ کے حامل جرنیلوں نے لانچ کیا تھا جنہوں نے آرمی ٹریننگ سکول منگلا کو 2016 میں بند کروا دیا تھا اور جسے اب جنرل عاصم منیر بحال کرنا چاہتے ہیں۔ کاکولی مائنڈ سیٹ کا ایک اور بڑا ہدف اٹھارویں ترمیم کو ختم کروانا ہے جس کے ذریعے صدر آصف زرداری نے نہ صرف پارلیمنٹ کو مضبوط کرتے ہوئے صدر کے اختیارات واپس وزیراعظم کو سونپ دیے تھے بلکہ صوبوں کو بھی مالی معاملات میں با اختیار کر دیا تھا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ کاکولی مائنڈ سیٹ والے عمران خان کو بیل آؤٹ کروا کر دوبارہ اقتدار میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ عدالتی سہولت کاری سے آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو ختم کر دیں۔ جبکہ دوسری جانب غیر کاکولی سوچ کا پیراڈائم کاکول والوں کی فاشسٹ سوچ کے مدمقابل اب تک ایک بہت مضبوط جمہوری رکاوٹ کے طور پر کھڑا ہے۔ یعنی اصل جنگ ‘ کاکولی مائنڈ سیٹ’ والوں اور ‘غیر کاکولی جنرل عاصم منیر’ کے مابین ہے، جسے جتنی جلد ہو سمجھ لیا جانا چاہیے تاکہ پاکستان کو بچایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں