عوامی احتجاج کے بعد شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی حلقوں میں بنگلہ دیش اور پاکستان کا موازنہ جاری ہے جہاں عمران خان سمیت پی ٹی آئی رہنما پاکستان میں بھی ایک ایسے انقلاب کے نعرے بلند کر رہے ہیں وہیں ڈھاکہ سے سامنے آنے والے مناظر کے بعد پاکستان میں گزشتہ سال نو مئی کو پیش آنے والے واقعات کا چرچا بھی زوروں پر ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں نہ تو بنگلہ دیش جیسے حالات ہیں، نہ ہی یہاں سیاسی جماعتیں یا طلباء تنظیمیں اتنی مضبوط ہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ یہ چاہے گی کہ پاکستان میں احتجاجی مظاہرین حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ اس لئے پاکستان میں عوامی انقلاب ایک دیوانے کے خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف ماضی میں بھی مشرقی پاکستان کے حالات کی مثال دیتی رہی ہے تاہم موجودہ صورت حال میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی حالیہ صورت حال سے پاکستان کا موازنہ کرنا درست ہے؟
بنگلہ دیش کی صورتحال پر نظر رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار اس بارے میں مِلے جلے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔نئی دہلی سے صحافی جینت رائے چوہدری بھی بنگلہ دیش کے حالات کے پاکستان کے ساتھ موازنہ کو درست نہیں گردانتے۔انھوں نے کہا کہ ’اگر آج بنگلہ دیش کا موازنہ خطے کے دیگر ممالک سے کریں تو اس نے ترقی میں ناصرف پاکستان بلکہ انڈیا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔‘’بنگلہ دیش اس وقت دنیا میں تیارہ شدہ کپڑے برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔‘
یاد رہے کہ 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کا غریب ترین ملک تھا جس کے معاشی حالات اتنے ابتر تھے کہ اُس وقت امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے بنگلہ دیش کو’باسکِٹ کیس‘ کہا تھا۔یہ حالات 1974 میں مزید خراب اس وقت ہوئے جب بنگلہ دیش میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں قحط سالی ہوئی اور اسی دوران امریکی صدر رچرڈ نِکسن کی حکومت نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی امداد بھی ختم کر دی۔ مگر آج تقریباً 52 برس بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت بن کر ابھرا ہے۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس ترقی میں سب سے بڑا ہاتھ غیر سرکاری تنظیموں کا ہے جن میں محمد یونس کا گرامین بینک اور فضلِ حسن عابد کا شروع کیا ہوا ادارہ ’براک‘ شامل ہیں۔
جینت رائے چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’اس وقت انڈیا میں یہ خدشہ ہے کہ پاکستان جیسا بننے کے بجائے بنگلہ دیش کہیں افغانستان نہ بن جائے۔‘ان کے مطابق اس کی مثال 1990 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے جا ملتی ہے۔ ’اُس وقت کئی بنگلہ دیشی نوجوان طالبان کی سوچ سے متاثر ہو کر افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور ان کے لیے لڑنے کو بھی تیار تھے۔ لیکن ان کی حکومت کے گِرنے کے بعد یہی نوجوان واپس بنگلہ دیش آگئے۔‘انھوں نے کہا کہ یہ وہ دور تھا جب شیخ حسینہ واجد کی حکومت کم عرصے کے بعد ختم ہوچکی تھی اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’طالبان کی حمایت کرنے والا گروہ اب پھر سے سرگرم ہوسکتا ہے۔ اسی لیے پاکستان بننے سے زیادہ بڑا خدشہ مجھے بنگلہ دیش کے افغانستان بننے کے بارے میں ہے۔‘
تاہم بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کا بنیادی ڈھانچہ بہت مختلف ہے۔’پاکستان میں فوج نے طویل عرصے تک حکمرانی کی ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش میں تواتر سے جمہوری حکومتیں رہی ہیں۔ سنہ 2000 کی دہائی کے بعد زیادہ عرصہ جمہوری حکومتوں کا رہا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’بنگلہ دیش میں بنیادی طور پر معیشت مضبوط ہوتی دکھائی دی ہے۔ خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہیں اور طلبہ یونین مضبوط رہی ہیں اور ملک کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھتی ہیں۔ یہاں کی اپنی تہذیب، زبان ہے اور جمہوری اقدار کو تقویت دی جاتی ہے۔‘
تجزیہ کار بنگلہ دیش کے حالات کا پاکستان کے ساتھ موازانہ کرنے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’اسی لیے بنگلہ دیش میں فوجی آمریت یا حکومت آنے کا سوال نہیں بنتا۔ اور اگر کسی ہائبرڈ نظام کو متعارف کیا بھی جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گا۔‘اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’جب بنگلہ دیش کے ملٹری چیف نے شیخ حسینہ کی حکومت ختم ہونے کا اعلان کیا اور اس کے بعد کہا کہ ہم عبوری حکومت بنائیں گے، تب طلبہ یونین نے ناصرف اس بات کو رد کیا بلکہ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کو بطور امیدوار سامنے لے کر آئے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش کی مضبوط طلبہ یونین اور ان کی متحرک تحریک سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کرے گی کیونکہ فوج میں بھی ان کے وفادار اور حامی ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آرمی چیف وقار الزمان کو بھی دیکھیں تو ان کی وفاداری پہلے شیخ حسینہ اور عوامی لیگ کے ساتھ ہوگی۔ تاہم طلبہ یونین اب نہیں چاہیں گے کہ شیخ حسینہ یا ان کی باقیات اب آنے والی حکومت کا حصہ بنیں۔ تو پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔‘