26 ویں ترمیم نے واقعی پارلیمنٹ کی ساکھ خراب کی ہے؟

سینئیر اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ پچھلے کئی روز اسلام آباد میں جو کچھ ہوتا رہا اُس نے پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا سمیت تمام ریاستی اداروں کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے ۔ پوری قوم 25 اور 26 اکتوبر کے کھیل میں پھنسا دی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے 25 اکتوبر کوریٹائر ہونا ہے۔ شہباز شریف حکومت کا خیال تھا کہ فائز عیسیٰ چلے گئے تو ان کی حکومت کمزور ہو جائے گی۔ لہٰذا اُنہوں نے حکومت کو بچانے کیلئے 25 اکتوبر سے پہلے 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی خاطر سردھڑ کی بازی لگادی۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ 25 اور 26 کے اس منحوس کھیل میں بہت سے چہروں کے نقاب اُتر گئے۔ کسی کی جمہوریت پسندی فراڈ نکلی اور کسی کی آئین پسندی ڈرامہ نکلی۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہیں میں پہلے فصلی بٹیرے اور بکائو مال سمجھتا تھا لیکن اس کھیل میں جسمانی تشدد کے باوجود اُنہوں نے اپنے ضمیرکا سودا نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے 26ویں آئینی ترمیم کا ابتدائی مسودہ دیکھا تو مجھے یقین نہ آیا کہ یہ اعظم نذیر تارڑ نے تیار کیا ہوگا جن کو میں پہلی بار عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ملا تھا۔ یہ مسودہ ایک غیر اعلانیہ مارشل لا لگانے کے مترادف تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اورپیپلز پارٹی آئینی عدالت کے نام پر بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے پر راضی ہو گئیں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمان کا جنہوں نے 26 ویں ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مسترد کردیا اور تحریک انصاف اُن کی جمہوریت پسندی اور استقامت کے گیت گانے پر مجبور ہو گئی۔ مولانا نے آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ کی تشکیل پر بلاول بھٹو زرداری کو راضی کر لیا۔ آئینی بینچ پر اتفاق کا مطلب یہ تھا کہ فائز عیسیٰ کی توسیع کا بندوبست نہیں ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) نے یہ کڑوا گھونٹ تو پی لیا لیکن پھر جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کیلئے آئینی ترمیم کے مسودے میں تبدیلیاں کی گئیں ۔ ایک بار پھر وزراء نے 26 ویں آئینی ترمیم کیلئے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا اور میڈیا نے بھی ان دعوئوں کو ہیڈ لائنز بنا کر اپنی ساکھ کو خود تباہ کر دیا۔

حامد میر کہتے ہیں کہ اس دوران اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کا انعقاد ہوا جو ایک بہت بڑی کامیابی تھی لیکن صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف اپنی اس کامیابی کو بیچ میں چھوڑ کر بھاگم بھاگ لاہور پہنچ گے جہاں میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو ڈنر پر بلا رکھا تھا ۔ نواز شریف اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ مولانا راضی ہو چکے ہیں اور کھانے کے بعد وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہو کر 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں بیان جاری کر دیں گے ۔ ابھی ڈنر شروع نہیں ہوا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ موجود اُن کے ایک ساتھی ایم این اے کو دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ اگر آپ نے 26 ویں ترمیم کےحق میں ووٹ نہ دیا تو اس کے سنگین نتائج نکلیں گے۔ جب اس دھمکی سے مولانا کو آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے مہربانوں سے کہا کہ آپ ہمیں اپنا مہمان بنا کر دھمکیاں کیوں دلوا رہے ہیں ؟

حامد میر کے بقول وزیر اعظم شہباز شریف نے صورتحال کو وقتی طور پر سنبھال لیا۔ لیکن آئینی ترمیم کی نحوست ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ 25 اور 26 کے اس منحوس کھیل نے بڑے بڑے سیاست دانوں اور جماعتوں کو بونا بنا دیا ہے ۔ رہنما رہنما نہ رہے۔ جج جج نہ رہے اور صحافی صحافی نہ رہے ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مل کر اپنے جج کو بچانے اور تحریک انصاف کےجج کو راستے سے ہٹانے میں سرگرم نظر آئیں۔ تحریک انصاف نے بار بار لوگوں کو سڑکوں پر لاکر حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی، البتہ اس کے اراکین قومی اسمبلی کی ایک بڑی اکثریت نے پشاور میں پناہ لے کر اپنے ضمیر کو فروخت سےبچا لیا ۔

حامد میر کہتے ہیں کہ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے کئی اراکین قومی اسمبلی کو جانتا ہوں جو کہتے ہیں کہ پختونوں نے اُنہیں اپنی پناہ میں لیکر پنجاب کے اہل ستم سے بچا کر جو احسان کیا ہے اُس کے نتیجے میں پنجاب کے سیاستدان مزید بدنامی سے بچ گئے ہیں ۔ اس منحوس کھیل میں ہمارے ارباب اختیار نے ووٹ حاصل کرنے کیلئے اپنی ماؤں بہنوں کی عزت کا بھی خیال نہیں کیا ۔ کسی خاتون سینیٹر کے ووٹ کے لئے اُسکا خاوند اغوا کر لیا گیا اور کسی کا بیٹا اغوا کر لیا گیا۔ یہ سب قومی مفاد کے نام پر ہوا لیکن اہنے ذاتی مفاد کے لیے دھونس اور دھاندلی کا استعمال کرنے والے بھول گئے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، آج نہیں تو کل جھوٹ نے سامنے تو آنا ہے- عزت اور ذلت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ جھوٹ بولنے والوں کو کبھی عزت نہیں ملتی لہٰذا 25اور 26 کے منحوس کھیل میں شامل سب کردار جلد نمونہ عبرت بنیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں