کورٹ مارشل کا سامنا کرنے والی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ گرفتاری سے پہلے تحریک انصاف کے ڈیفیکٹو سربراہ کے طور پر کام کر رہے تھے اور عمران خان کے حکم کے مطابق ان کی پارٹی کے تمام مرکزی قائدین فیض سے ہدایات لیتے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان سے لے کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمران ایوب خان تک تمام پی ٹی آئی قائدین روزانہ کی بنیاد پر ہر ایشو پر بولنے سے پہلے فیض حمید سے ہدایات لیتے تھے جو کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران گرفتار ہونے کے باوجود جیل سے مسلسل فیض حمید کے ساتھ رابطے میں تھے اور انہی کے مشورے سے پارٹی معاملات چلا رہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کا منصوبہ بھی فیض حمید نے عمران کے مشورے اور منظوری سے تیار کیا تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے فیض حمید اگر اعتراف جرم کر لیتے ہیں تو پھر عمران کا بھی 9 مئی کی سازش کے الزام میں کورٹ مارشل سے بچنا ممکن نہیں رہے گا۔
یاد ریے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت جنرل فیض کو ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے اس پابندی کی مسلسل خلاف ورزی کی۔ دوسری جانب سینیئر صحافی انصار عباسی نے تصدیق کی ہے کہ فیض حمید اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پی ٹی آئی کی سیاست چلانے اور اسکے کیے منصوبہ بندی کرنے میں مرکزی کردار ادا کر رہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق جرنیل پی ٹی آئی قیادت کو مشورے دیتے تھے کہ پارٹی کو سیاسی طور پر کیسے فعال بنایا جائے۔ جنرل فیض اور عمران کے درمیان جیل کے عملے کے کچھ ارکان سمیت مختلف چینلز کے ذریعے رابطہ تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل کے عملے کے کچھ ارکان پہلے ہی اپنے بیانات قلمبند کرا چکے ہیں جن سے فیض اور عمران کے تعلق اور ان کے درمیان مسلسل بات چیت کی تصدیق ہوتی ہے۔ بتایا جاتا یے کہ جنرل فیض حمید گزشتہ دو برسوں کے دوران فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے والی جماعت پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی رابطوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی سکینڈل میں گرفتار ہونے والے فیض حمید کو ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کی پابندی کا پاس نہ کرنے پر بھی کاروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیض پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے پہلے آرمی چیف بننے کے لیے تحریک انصاف کو استعمال کیا اور پھر جب وہ یہ پوزیشن حاصل نہ کر سکے تو انہوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر 9 مئی کے حملوں کی سازش تیار کی تاکہ فوج میں بغاوت کو ہوا دی جا سکے۔ جنرل فیض کو فوجی حکام نے ان کی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کی قابل اعتراض سرگرمیوں کے حوالے سے ایک سے زیادہ مرتبہ خبردار کیا لیکن وہ باز نہ آئے۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جنرل فیض ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطے کے بارے میں تھے، تاہم جب ان کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی خبر سامنے ائی تو عمران نے پہلے تو فیض کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا اور بعد میں انہیں “ڈس اون” کر دیا۔
سابق آئی ایس آئی چیف کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جب سے جنرل فیض کو آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تب سے وہ اُن سے رابطے میں نہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر جرنیل ’’زیرو‘‘ ہو جاتا ہے۔ تا ہم سرکاری ذرائع عمران کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے ناقابل تعدید ثبوت موجود ہیں جو کہ اڈیالہ جیل کے سینئیر افسران کی گرفتاری کے بعد حاصل کیے گئے۔ ان ثبوتوں میں نوکیا کے وہ فون بھی شامل ہیں جو عمران خان اپنے چیف۔منصوبہ ساز فیض حمید کے ساتھ رابطوں کے لیے استعمال کرتے رہے۔