حکومت و عسکری اسٹیبلشمنٹ جہاں ملک کو معاشی استحکام دینے کیلئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہیں پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کا بیانیہ بنانے والے عمرانڈو رہنما اب معیشت کی تباہی کا ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے ہیں۔ روزانہ ایسی فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں جس سے عام پاکستانی کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ معاشی بحران بہت سنگین ہو گیا ہے اور پاکستان معاشی طور پر تباہ ہو رہا ہے۔
اب پی ٹی آئی کی جانب سے ملک کے ڈیفالٹ کی بجائے معاشی تباہی کا بیانیہ بنایاجا رہا ہے۔ تاکہ مہنگائی کی ستائی عوام کو حکومت کیخلاف بھڑکا کر افراتفری کا سامان کرتے ہوئے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کی جا سکے۔ تاہم مبصرین کے مطابق مستحکم ہوتی ہوئی ملکی معاشی صورتحال کی وجہ سے شرپسند عمرانڈوز کا یہ خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
ایک ماحول بنایاجا رہا ہے کہ بڑی کاروباری کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر جا رہی ہیں۔ ملک پر معاشی طور پر بین الاقوامی اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ تاہم حقائق ان افواہوں کے بالکل برعکس عکس ہیں۔ سو شل میڈیا پر اس خبر کا بہت چرچا ہے کہ پاکستان میں آٹھ سو سے زائد پٹرول پمپ رکھنے والی بین الا قوامی فرانس کی کمپنی ٹوٹل نے پاکستان سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔وہ پاکستان کی معاشی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑ کر جا رہی ہے۔
اب اس خبر کی حقیقت کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹوٹل نے اپنے کل بزنس کے پچاس فیصد حصص سوئٹزر لینڈ کی کمپنی کو بیچ دیے ہیں۔ یہ پچاس فیصد حصص 26.5ملین ڈالر میں فروخت کیے گئے ہیں۔ پہلے صرف فرانس کی ٹوٹل پاکستان میں تھی اب سوئٹزر لینڈ کی کمپنی بھی شامل ہو گئی ہے۔ یہ بین الاقوامی اشتراک ہے۔ جو پاکستان کے معاشی استحکام کی نشانی ہے کہ بین الا قوامی کمپنیاں پاکستان میں کاروبار خریدنے اور کام کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اب پاکستان میں اس خبر کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ معاشی ماہرین کے نزدیک یہ ایک مثبت خبر ہے۔ عوام کو یہ خبر معاشی تباہی کے طور پر بتائی جا رہی ہے۔
حالانکہ یہ اشتراک معاشی استحکام کی نشانی ہے۔ایک اور خبر بہت پھیلائی جا رہی ہے کہ شیل نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ شیل جا رہی ہے۔ اب خبر کی حقیقت کیا ہے۔ شیل نے اپنے کاروبار کا 77.42حصص سعودی کمپنی وافیل انرجی کو بیچ دیے ہیں۔ اب شیل اور سعودی کمپنی ملکر کام کریں گے۔ یہ بھی دو بڑی کمپنیوں کا اشتراک ہے۔اب نئی خبر ہے کہ موڈیز نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی ہے۔ ورنہ پہلے تو ریٹنگ کم کرنے کی خبر آتی تھی۔
موڈیز نے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ۔ ڈیفالٹ رسک میں کمی لیکویڈٹی میں بہتری کی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں ایک درجہ بہتری کی ہے۔ایسا پاکستان میں پہلے کب ہوا ہے۔ کیا یہ معاشی استحکام کا عالمی اعتراف نہیں ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کا پیکیج نہیں آیا۔ لیکن معاشی استحکام نظر آرہا ہے۔ ابھی عالمی سرمایہ کاری پہنچی نہیں لیکن معاشی استحکام نظر آرہا ہے۔ روپے کی قدر مستحکم ہے۔ وہ دن گئے جب روز روپے کی قدر گر جاتی تھی۔ ڈالر کی اونچی اڑان قابو میں نہیں تھی۔ آئی ایم ایف لیٹ ہوگیا ۔ ڈالر چڑھ گیا۔ لیکن حکومت نے یہ سب ختم کر دیا ہے، روپے کی قدر اب ایک سال سے ز ائد سے مستحکم نظر آرہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ملک میں مہنگائی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اب مہنگائی کے بھی دو حصہ ہو گئے ہیں۔ ایک مہنگائی ہے دوسری بجلی کی قیمت ہے۔ مہنگائی جس میں بجلی کے علاوہ ضروریات زندگی کی چیزیں شامل ہیں۔اس میں کمی ہوئی ہے۔ ملک میں شرح سود کا مہنگائی اور افراط زر سے گہرا تعلق ہے۔ جب مہنگائی عروج پر تھی تو ملک میں شرح سود بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ اب جب مسلسل شرح سود میں کمی آرہی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مہنگائی میں کمی آرہی ہے۔ لیکن بجلی کا مسئلہ یقینا اس حکومت کی گلے کی ہڈی ہےجب تک بجلی کی قیمت کا کوئی حل نہیں نکلتا، یہ شور کم نہیں ہوگا۔ لیکن مہنگی بجلی کے علاوہ موجودہ حکومت کی معاشی محاذ پر جو کامیابیاں ہیں، ان کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔