بنگلہ دیش میں عوامی تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی ڈرامائی برطرفی کے بعد پاکستانی تجزیہ کار بحث کر رہے ہیں کہ کیا یہاں بھی ایسی کسی تحریک کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ بظاہر ایک عوامی تحریک کے لیے حالات اس سے زیادہ سازگار نہیں ہو سکتے خصوصا جب ایک مقبول سیاست دان جیل میں بند ہے، اس کے حمایتی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں، معاشی حالات خراب تر ہو رہے ہیں، اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ اس وقت بنگلہ دیش کے طرز کی عوامی بغاوت پاکستان میں نہیں ہو سکتی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھنے والے معروف تجزیہ کار رضا رومی اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ دو سال سے زیادہ عرصے سے عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کشمکش سے عبارت ہے۔ عمران کو اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل کر دیا گیا تھا، یہ بظاہر ایک آئینی عمل تھا جس کی پشت پر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مؤثر حمایت موجود تھی۔ عمران اور ان کی پارٹی نے حکومت کی اس تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اسے امریکہ کی حمایت سے پاک فوج کی جانب سے تیار کی گئی غیر ملکی سازش قرار دیا۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ جیسا کہ پاکستان میں یہ عوامی تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومتوں کی تشکیل اور ان کے خاتمے میں اللہ، امریکہ اور فوج کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بڑا فرق یہ سامنے آیا کہ عمران خان نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کو فوج کے خلاف کھڑا کر دیا اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں فوج کے حامی متوسط طبقے کو فوج کے خلاف کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے اس پیش رفت کو ملکی سیاسی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا۔ اپریل 2022 سے مئی 2023 میں اپنی گرفتاری تک عمران خان نے کم از کم 50 جلسے کیے، کم و بیش ہر روز قوم سے ‘خطاب’ کیا اور خبروں پر چھائے رہے۔ جزوی طور پر، ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑی تعداد میں ان کے حامیوں کی ماجودگی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں جو انہیں ملک کے لیے بہترین انتخاب سمجھتے ہیں، کی حمایت کی وجہ سے ممکن ہوا۔
رضا رومی کے مطابق دلچسپ بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانی فوجی سربراہ سے صدر بننے والے پرویز مشرف کو ملک کی قیادت کے لیے بہترین انتخاب سمجھتے تھے۔ لیکن مشرف کے اقتدار اور سیاست سے باہر ہونے کے بعد عمران ان لوگوں کے پسندیدہ ترین لیڈر بن گئے اور اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران کے بڑے حامی ہیں۔ غالباً ان کی مقبولیت میں سب سے بڑا اضافہ اس حکومت کی طرف سے لیے گئے مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے ہوا جس نے عمران حکومت کی جگہ لی۔ شہباز شریف کی حکومت نے 2022 میں عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مقرر کردہ شرائط کو پورا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں ڈرامائی گراوٹ آئی، افراط زر 40 فیصد تک پہنچ گیا جو حالیہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے، اور پیداوار میں کمی آئی جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ متوسط طبقے کو مزید نچوڑا گیا اور وہ لوگ جو ایک بہتر معاشی مستقبل کے خواہشمند تھے، شدید مایوسی اور غصے میں آ گئے۔ جب سڑکوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عمران خان کی عوامی حمایت بڑھ رہی تھی، طاقت کے مراکز ان کے خلاف ہو رہے تھے۔ جس جنرل کو آئی ایس آئی کے سربراہ کی حیثیت سے برطرف کیا گیا تھا وہ عمران کی مخالفت اور ان کی تعیناتی رکوانے کے لیے کیے گئے لانگ مارچ کے باوجود نومبر 2022 میں آرمی چیف بن گئے۔ سپریم کورٹ کے جس جج کو عمران کی حکومت نے نکالنے کی کوشش کی تھی وہ بھی بچ گئے اور 2023 میں چیف جسٹس بن گئے۔ عمران دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فوج کے ایما پر کیا گیا تھا۔ ملک کے اہم فیصلے اس وقت یہی دو غیر منتخب ادارے کر رہے ہیں۔
رضا رومی بتاتے ہیں کہ لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی برادری، جس میں بلاول بھٹو کی پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ ن شامل ہیں، نے اقتدار تک پہنچنے اور عمران کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش دلی کے ساتھ اتحادی بنا لیا ہے۔ یہ وہی شریف برادران اور موجودہ صدر آصف علی زرداری ہیں جنہیں عمران حکومت نے کرپشن کے الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ مئی 2023 میں عمران کو جیل بھیج دیا گیا۔ 9 مئی کو ان کے حامیوں نے احتجاج کیا اور ان کا ہدف وہ نہیں تھا جو عام طور پر مظاہرین کا ہوتا ہے۔ وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس اور متعدد فوجی تنصیبات اور طاقت کی علامتوں کے باہر جمع ہوئے۔ ان مظاہروں کو بغاوت کی سازش کا حصہ قرار دینے کے بعد عمرانڈوز کیخلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا گیا، عمران خان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اگست 2023 سے وہ جیل میں ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش اور پاکستان کی سیاسی صورت حال میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حسینہ واجد کے خلاف عوامی احتجاج کے بعد وہاں کے آرمی چیف میدان میں اگے اور حسینہ واجد کو چند گھنٹے کا الٹیمیٹم لے کر استیفہ دینے پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف پاکستان میں موجودہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور اتحادی حکومت اس وقت ایک ہی صفحے پر موجود ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے ہی دو برس پہلے اس عہدے پر تعینات کیا تھا جبکہ عمران خان نے اس فیصلے کو رکوانے کی پوری کوشش کی تھی چونکہ وہ جنرل فیض حمید کو ارمی چیف بنوانا چاہتے تھے جو کہ ان کے لیے چیف منصوبہ ساز کا کام کرتے تھے۔ آج فیض حمید کورٹ مارشل کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ عمران اڈیالہ جیل میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن بنگلہ دیش اور پاکستان کا بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں پر لوگ حسینہ واجد کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے جبکہ پاکستان میں عمران خان کی جانب سے بار بار جلسے اور جلوسوں کی کالز کے باوجود ایسا کچھ نہیں ہو پا رہا۔ لہذا پاکستان میں بنگلہ دیش طرز کی کسی عوامی بغاوت کا ہونا ایک دیوانے کا خواب نظر اتا ہے۔