پاکستانی عوام بھی تبدیلی کی خاطر گولیاں کھانے کو تیار ہیں؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے زوال کے بعد پاکستان میں یہ بحث شروع ہوئی کہ ہمیں بنگلہ دیش کے حالات سے کیا سبق سیکھنا چاہئے؟ کچھ سیاست دانوں نے یہ امید بھی لگا لی ہے کہ جو بنگلہ دیش میں ہوا وہ پاکستان میں بھی ہو جائے گا۔ لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں 300 سے زیادہ نوجوانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حسینہ واجد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لہذا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی عوام بھی بنگالیوں کی طرح گولیاں کھانے کیلئے تیار ہیں؟

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں پہلی بار شیخ مجیب الرحمان کے مجسمے پر حملے نہیں ہوے۔ ایسا پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کو بنگلہ دیش میں بنگلہ بندھو یا بابائے قوم کا درجہ دیا جاتا تھا۔ 1975ء میں بنگلہ بندھو کے قتل کے بعد ناصرف ان سے بابائے قوم کا اعزاز چھیننے بلکہ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ اور قومی پرچم تبدیل کرنے کی بھی کوشش ہوئی۔ شیخ حسینہ واجد بھی سری لنکا کے سابق صدر راجہ پکسا جیسے انجام سے دوچار ہوئیں۔ راجہ پکسا 2022 میں عوامی دبائو پر کولمبو سے اپنے خاندن سمیت فرار ہو گیا تھا لیکن کچھ عرصہ بعد اسے سری لنکا واپسی کی اجازت مل گئی تھی۔ حسینہ واجد 5 اگست کی دوپہر ڈھاکہ سے بھارت فرار ہو گئیں جس کے چند لمحوں بعد عوام کا ہجوم وزیراعظم ہائوس میں گھس کر توڑ پھوڑ کر رہا تھا۔ حسینہ واجد کے زوال کے بعد پاکستان میں یہ بحث تو شروع ہوئی کہ ہمیں بنگلہ دیش کے حالات سے کیا سبق سیکھنا چاہئے لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی عوام بنگلہ دیشیوں کی طرح گولیاں کھانے کو تیار نہیں ہیں۔

حامد میر کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے حالات سے سبق ضرور سیکھیں لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں فرق کو مت بھولیں۔ یاد ریے کہ تحریک پاکستان ڈھاکہ سے شروع ہوئی تھی، لاہور یا کراچی سے نہیں۔ بنگالیوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کو بنگال میں 1937ء میں حکومت دلوا دی تھی جبکہ قرارداد پاکستان اس کے تین سال بعد 23 مارچ 1940ء کو منظور ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمان تحریک پاکستان میں بہت سرگرم تھے۔ بنگالیوں کی کانگریس سے لڑائی کا آغاز بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے پر ہوا تھا۔ جب مسلم لیگ نے بندے ماترم کو قومی ترانہ بنانے کی کھل کر مخالفت کی تو وہ بنگال میں کانگریس کو پیچھے چھوڑ گئی۔ بندے ماترم پر بنگالی مسلمان اتنے ناراض تھے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کو اکتوبر 1938ء میں کلکتہ کے مسلمانوں نے نماز عید کی امامت سے ہٹا دیا اور مولانا آزاد سبحانی کی امامت میں نماز عید ادا کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تحریک پاکستان کا اصل مرکز بنگال تھا اور 1946ء میں لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے غیر بنگالیوں کو پاکستان کے نام پر بنگال سے مرکزی اسمبلی کا رکن بنوایا گیا۔

حامد میر کہتے ہیں دیکھنا یہ ہوگا کہ قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں کے ساتھ کیا ہوا اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کچھ کیا؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ 1958ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی خان ایوان کے اندر تشدد سے زخمی ہو کر چل بسے۔ ان کی موت کا شیخ مجیب نے بہت فائدہ اٹھایا۔ 1965ء میں شیخ مجیب نے ایوب خان کے مقابلے پر محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے ہرا دیا گیا۔ پھر 1970 کا الیکشن آ گیا جس میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو اکثریت مل گئی۔ لیکن صدر جنرل یحیی خان کی جانب سے انہیں اقتدار منتقل کرنے کی بجائے فوجی آپریشن کیا گیا جسکے نتیجے میں پاکستان دولخت ہو گیا، یہ وہ زمانہ تھا جب ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیاء الرحمان نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کو گولی مار دی اور چٹاگانگ ریڈیو پر قبضہ کر کے 27 مارچ 1971ء کو بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ میجر ضیاء الرحمان نے دو اعلان کئے۔ انہوں نے پہلا اعلان اپنی طرف سے کیا تو عوامی لیگ والوں نے اعتراض کر دیا لہازا انہوں نے دوسرا اعلان شیخ مجیب کے نام پر کیا جو پاکستانی فوج کی حراست میں تھے۔ یہ میجر ضیا اور شیخ مجیب میں غلط فہمیوں کا آغاز تھا۔ خالدہ ضیا کا شوہر میجر ضیاء خود کو آزادی کا ہیرو سمجھتا تھا لیکن سیاسی دبائو پر اسے شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو تسلیم کرنا پڑا۔ 15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیشی فوج کے جن افسران نے شیخ مجیب کے خلاف بغاوت کی ان میں لیفٹیننٹ جنرل ضیاء الرحمان بھی شامل تھے جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بن گئے۔ صدر بننے کے بعد پاکستان میں ان کی بہت آئو بھگت کی جاتی تھی۔ جنرل ضیاء الرحمان پی ایم اے کا کول کے تربیت یافتہ تھے۔ پاکستانی فوج میں ان کے تعلقات تھے لہٰذا انہوں نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل رشید جنجوعہ کو جیسے قتل کیا اسے بھلا دیا گیا۔ لیکن جنرل کے ایم عارف اس درندگی کو نہ بھولے وہ اپنی کتاب ’’خاکی سائے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ضیاء الرحمان بنگلہ دیش کے صدر کی حیثیت سے پاکستان آیا تو میں نے بطور ڈپٹی آرمی چیف اس کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیے میں شرکت سے معذرت کر لی کیونکہ میں کرنل جنجوعہ کے قتل کو فراموش نہ کر سکا تھا۔ ضیاء الرحمان نے عوامی لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے جماعت اسلامی سے اتحاد کیا۔ انہوں نے بنگلہ دیش کے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کیں یہاں تک کہ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ بدلنے کی کوشش کی جو رابندر ناتھ ٹیگور کا لکھا ہوا ہے۔ وہ قومی ترانہ او رقومی پرچم بدلنے کے منصوبے بنا رہے تھے کہ انہیں چٹاگانگ میں اپنی فوج کے کچھ افسروں نے 1981ء میں قتل کر دیا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ یہ وہی جگہ تھی جہاں 1971ء میں انہوں نے کرنل رشید جنجوعہ کو قتل کیا تھا۔ 1975ء سے 1995ء تک بنگلہ دیش میں عوامی لیگ زیر عتاب تھی۔ شیخ مجیب کو بنگلہ بندھو کی سرکاری حیثیت نہیں ملتی تھی۔ 1996ء میں حسینہ واجد وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے اپنے والد کی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کا سیاسی اختلاف دراصل خاندانی دشمنی بن گیا تھا اور نفرت کی سیاست نے بنگلہ دیش میں بہت قتل وغارت کی۔ حسینہ واجد نے اپنے دورِ اقتدار میں ناصرف ہزاروں سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالا بلکہ نامور صحافیوں پر بغاوت کے مقدمے بھی بنائے۔ حسینہ واجد نے 7جنوری 2024ء کو بنگلہ دیش میں ایک فراڈ الیکشن کرایا جس کا تمام اہم اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ اس الیکشن نے حسینہ واجد کے خلاف وہ نفرت پیدا کی جس کا نتیجہ ایک عوامی تحریک کی صورت میں نکلا اور مشتعل نوجوانوں نے شیخ مجیب کے مجسمے توڑ دیئے۔ بنگلہ دیشی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل وقار حسینہ واجد کے رشتہ دار ہیں اور خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے بحران کا حل آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہیں، حسینہ واجد منظر سے ہٹ گئی ہیں لیکن انکے مخالفین کی غلطیاں عوامی لیگ میں دوبارہ جان ڈال سکتی ہیں۔ ہمیں اپنی سیاست میں نفرت اور انتقام کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ ایسی سیاست کا انجام وہی ہوتا ہے جو حسینہ واجد اور ان کے والد کے مجسموں کا ہوا۔

اپنا تبصرہ لکھیں