مخصوص سیٹوں پر کی گئی قانون سازی ریورس ہو پائے گی یا نہیں؟

شہباز شریف حکومت کی جانب سے قانون سازی کے ذریعے پارٹی تبدیل کرنے پر پابندی لگائے جانے کے بعد مخصوص نشستوں کے معاملے پر عدالتی جنگ شروع ہوگئی ہے، تحریک انصاف کی جانب سے اس قانون سازی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے بعد الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ سے 12 جولائی کا فیصلہ واپس لینے کی استدعا کر دی ہے جس کے تحت 8 ججز کی جانب سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا اکثریتی فیصلہ دیا گیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے درخواست پر اسکے حق میں فیصلہ آنے کا امکان اس لیے کم ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا بنیادی حق ہے اور خود جسٹس منصور علی شاہ ماضی قریب میں 9 دیگر ججز کے ساتھ مل کر یہ اکثریتی فیصلہ دے چکے ہیں کہ عدالت پارلیمینٹ کی جانب سے کی گئی قانون سازی ختم نہیں کر سکتی۔

اب الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر نظرثانی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اعلی عدالت کے فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی، جیسا کہ اس پر الزام عائد کیا گیا ہے۔ کمیشن کا موقف ہے کہ مخصوص نشستیں پارلیمان میں موجود جماعت کو دی جاسکتی ہیں، جبکہ ریلیف پی ٹی آئی کو دیا گیا ہے جو کہ کیس میں پارٹی ہی نہیں تھی، نظر ثانی درخواست میں سنی اتحاد کونسل، صاحبزادہ حامد رضا، ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، ن لیگ و دیگر کو فریق بناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا ہے کہ عدالتی فیصلے میں ایسے حقائق کو مان لیا گیا جو کبھی عدالتی ریکارڈ پر موجود ہی نہ تھے۔ درخواست گزار کے مطابق پی ٹی آئی کے مخصوص نشستوں کے امیدواروں نے بھی کبھی ان کے لیے مطالبہ نہیں کیا، 80ارکان نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، ان 80 آزاد ارکان نے اپنی شمولیت کے حلف ڈیکلریشن جمع کرائے۔ الیکشن کمیشن کی درخواست میں بتایا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور اس نے مخصوص نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کرائی لہٰذا 41 ارکان کو دوبارہ پارٹی وابستگی کا موقع فراہم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔

اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے یہ موقف بھی اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کی کاروائی کے دوران کمیشن کو اس معاملے پر موقف دینے کا موقع نہیں دیا گیا، الیکشن کمیشن کو فیصلے کے نقطے پر سنے بغیر فیصلہ دیا گیا۔ درخواست گزار کے مطابق سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے کے احکامات امتیازی اور ایک پارٹی کے حق میں ہے، سپریم کورٹ نے فیصلے میں آئین و قانون کے آرٹیکلز و شقوں کو نظر انداز کیا جبکہ 12جولائی کے اکثریتی فیصلے میں عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ رہنما تحریک انصاف کنول شوذب سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے مخصوص نشست کے لیے سپریم کورٹ اگئیں، لیکن عدالتی فیصلے میں انہیں بھی تحریک انصاف میں شمولیت کی اجازت دے دی گئی جو کہ واضح فلور کراسنگ ہے اور غیر آئینی ہے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عدالتی دائرہ اختیار سے تجاوز کیا اور ائین پاکستان کو ازسر نو تحریر کر دیا لہذا اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔

دوسری جانب تحریک انصاف نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم بدنیتی پر مبنی، آئین اور قانون کیخلاف کی گئی ہے لہازا اسے کالعدم قرار دیا جائے، عمران خان کی جماعت نے موقف اختیار کیا ہے کہ 12جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں تحریک انصاف کا حق ہیں لیکن حکومت نے قانون سازی کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درامد کا راستہ بند کر دیا ہے۔ تاہم آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی درخواست پر کوئی مثبت فیصلہ آنا اس لیے ممکن نہیں کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کوئی بھی عدالت ریورس نہیں کر سکتی۔

اپنا تبصرہ لکھیں