فوجی افسران کا کورٹ مارشل، عمرانڈو افسران کے لیے سخت پیغام

پاکستان آرمی کے ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے جرم میں سزا سنا دی گئی ہے جسے فوج میں موجود عمرانڈو افسران کے لیے ایک سخت پیغام سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق مناسب عدالتی عمل کے ذریعے سابق افسر کو جرم کا مرتکب پانے پر انھیں ’مجرم‘ قرار دیتے ہوئے رواں برس 10 مئی کو 14 سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی اور ان کا عہدہ بھی ضبط کر لیا گیا۔ فوجی ترجمان کے مطابق اس سے قبل عادل فاروق راجہ اور حیدر رضا مہدی کو بھی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت بالترتیب 14 اور 12 سال قید بامشقت اور عہدہ ضبط کرنے کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ واضح رہے کہ یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ کو تحریک انصاف کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے 10 روز بعد پاکستان سے برطانیہ چلے گئے تھے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق میجر (ر) عادل فاروق راجہ اور کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت ’حاضر سروس اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے‘ پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سزا سنائی گئی۔ بیان کے مطابق ان کے خلاف مقدمے کے فیصلے میں ’سزا میں فرائض کی انجام دہی، جاسوسی کے بارے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کی خلاف ورزی، ریاست کے تحفظ اور مفاد کے خلاف منفی سرگرمیوں کی دفعات بھی شامل ہیں۔‘ آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں ریٹائرڈ افسران کے خلاف سات اور نو اکتوبر 2023 کو عدالتی کارروائی کے بعد سزا سنائی گئی جبکہ سابق افسران کے رینکس بھی 21 نومبر 2023 سے ضبط کر لیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ ان دونوں مجرمان کے خلاف اسلام آباد کے تھانے میں لوگوں کو فوج اور حکومت کے خلاف اکسانے کے مقدمات بھی درج ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ دونوں ملزمان بیرون ملک میں ہیں اور انھیں اشتہاری قرار دینے سے متعلق ضابطے کی کارروائی جاری ہے۔

یاد رہے کہ میجر ریٹائرڈ فاروق راجہ نے لندن پہنچنے کے بعد اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے پاکستانی فوج پر شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔ عادل فاروق راجہ برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت پر بھرپور تنقید کرتے رہے تھے اور اس نوعیت کے الزامات میں تیزی آنے کے بعد برطانیہ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔ برطانیہ میں اپنے خلاف دائر ہونے والی شکایتوں اور دعوؤں کے بعد وہ اپنے کئی دعوؤں سے پیچھے بھی ہٹے تھے۔

میجر عادل راجہ پاکستانی فوج میں خدمات سر انجام دینے کے بعد بھی فوجی منصوبوں سے وابستہ رہے۔ ان کے وی لاگز عموماً موجودہ عسکری قیادت کے خلاف ہوتے ہیں جن میں وہ فوج میں موجود اپنے ’ذرائع‘ جنھیں وہ ’خاموش مجاہد‘ کہتے ہیں، کے حوالے سے دعوے اور الزامات عائد کرتے رہتے ہیں۔ حیدر رضا مہدی بھی وی لاگز بناتے ہیں اور یہ عادل راجہ کے ساتھ مل کر بھی وی لاگز بناتے رہے ہیں۔

کیپٹن ریٹائرڈ سید حیدر رضا مہدی پاکستانی فوج کے ایک سابق افسر ہیں۔ ان کے پیٹریان اکاؤنٹ کے مطابق وہ ایک ’پاکستانی کینیڈین جیو پولیٹیکل تجزیہ کار اور کرنٹ افیئرز کمنٹیٹر‘ ہیں۔ وہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ اپنے وی لاگز، تحریروں اور انٹرویوز کے ذریعے پاکستان میں آزادی اور جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں جو ’ملٹری فاشزم اور فوج کی حمایت یافتہ کریمینل سیاستدانوں کی کرپٹ حکومتوں سے پاک ہو۔‘ تاہم انہیں ریٹائرڈ اور حاضر سروس عمرانڈو افسران کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔

فوجی ایکٹ کے تحت کارروائی کی صورت میں ملزم کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے اور یہ فوجی عدالت جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل یعنی جیگ برانچ کے زیر نگرانی کام کرتی ہے۔ اس عدالت کا صدر ایک حاضر سروس (عموماً لفٹیننٹ کرنل رینک) فوجی افسر ہوتا ہے۔ استغاثہ کے وکیل بھی فوجی افسر ہوتے ہیں۔ یہاں ملزمان کو وکیل رکھنے کا حق دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی ملزم پرائیویٹ وکیل رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو فوجی افسر ان کی وکالت کرتے ہیں۔ انھیں ’فرینڈ آف دی ایکیوزڈ‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہونے والی کارروائی کے بعد ملزم اپیل کا حق رکھتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں