24نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد جوتے چھوڑ کر بھاگنے والی بشریٰ بی بی نے ایک بار پھر پارٹی پر قبضے کیلئے جدوجہد تیز کر دی ہے۔ اپنی غیر سیاسی حکمت عملی سے اپنے مرید خاص عمران خان کی جیل یاترا میں اضافہ اور پی ٹی آئی کی سیاست کا کباڑہ نکالنے والی بشریٰ بی بی المعروف پنکی پیرنی نےدوبارہ پارٹی اختیارات اپنے ہاتھ میں لینا شروع کر دئیے ہیں۔
بشریٰ بی بی کے سیاسی طور پر دوبارہ متحرک ہونے سے جہاں پارٹی رہنما پریشانی سے دوچار دکھائی دیتے ہیں وہیں دوسری جانب سیاسی مبصرین کے مطابق پنکی پیرنی نے اپنی غیر سیاسی شرپسندانہ حکمت عملی کی وجہ سے عمران خان کی رہائی اور ریلیف کا پہلے ایک بڑا موقع ضائع کر دیا تھا جبکہ اب دوبارہ حکومت سے مذاکرات کی سورت میں پی ٹی آئی کو ریلیف کی فراہمی کی کچھ امید پیدا ہوئی ہے تو بشریٰ بی بی دوبارہ میدان میں آ گئی ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ مذاکراتی عمل بھی جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ناقدین کے مطابق پی ٹی آئی کو ریلیف کی فراہمی کے دوران ہی بشریٰ بی بی کے متحرک ہونے سے لگتا ہے کہ پنکی پیرنی خود نہیں چاہتیں ک عمران خان کبھی جیل سے باہر آئیں
خیال رہے کہ عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ضمانت پر رہائی ملنے کے بعدسے پشاور میں موجود ہیں۔ یوں تو وہ رہائی کے بعد سے پارٹی کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرتی رہی ہیں لیکن 24 نومبر کو عمران خان کی رہائی کے لیے کیے گئے لانگ مارچ میں وہ سیاسی طور پر کھل کر سامنے آئیں۔لانگ مارچ کے بعد وہ منظر عام پر تو نہیں آئیں تاہم پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی پشاور میں ہی موجود ہیں اور اہم معاملات دیکھ رہی ہیں جبکہ اب بشریٰ بی بی نے پارٹی قیادت کو اہم فیصلوں سے پہلے اپنے ساتھ مشاورت کا پابند کر دیا ہے
ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی نے عمران خان کی رہائی سے متعلق چند اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے دوران عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بنی گالا منتقل کیے جانے کے حوالے سے تجاویز بھی زیر غور آئیں۔ تاہم پارٹی رہنما ایسی ملاقاتوں کی تردید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بشریٰ بی بی نے پشاور میں پارٹی کے کیسز لڑنے والے وکلا کی تفصیل بھی طلب کر لی ہے جس کے بعد آئی ایل ایف پشاور سے متعلق اہم فیصلے کیے جائیں گے اور لیگل ٹیم میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے بعد بشریٰ بی بی پنجاب کی لیگل ٹیم سے متعلق بھی تفصیلات اکٹھی کر رہی ہیں۔
پارٹی ذرائع نے بتایا کہ 26 نومبر کے واقعے کے بعد بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہوگیا تھا جس کے باعث انہوں نے وزیراعلیٰ ہاؤس چھوڑ کر اسپیکر ہاؤس میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ تاہم اب دونوں کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں جس کے بعد وہ دوبارہ وزیراعلیٰ ہاؤس منتقل ہوچکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف پر قبضے کی جنگ اپنے آخری مراحل میں پہنچ چکی ہے۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی نے علیمہ خان سمیت اپنے تمام مدمقابل پی ٹی آئی کی قیادت کے دعویداروں کو نہ صرف سائیڈ لائن کر دیا ہے بلکہ عمران خان کے پیغامات کے نام پر پارٹی کی تمام فیصلہ سازی بھی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور اب غیر سیاسی ہونے کی دعویدار بشری بی بی المعروف پنکی پیرنی کھل کر پی ٹی آئی اجلاسوں کی صدارت کرتی نظر آتی ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی میں پرانے لوگوں اور نئے آنے والوں میں کشمکش جاری ہے، تین چار دھڑے اور گروپ بن چکے ہیں۔
مبصرین کے مطابق تحریک انصاف کے بانی عمران خان جتنا زیادہ عرصہ جیل میں مقید رہیں گے، اتنے ہی امکانات بڑھتے جائیں گے کہ پی ٹی آئی میں گروپنگ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہو گی، ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے پارٹی رہنما باہمی دست و گریبان ہونگے۔ جس کے بعد پارٹی میں ہی یہ مطالبہ زور پکرے گا کہ پی ٹی آئی کی قیادت ان کے گھر کا ہی کوئی بندہ سنبھالے جس پر عمران خان اور پارٹی کارکنوں کو یکساں اعتماد ہو۔
تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان سب سے زیادہ اعتماد اپنی اہلیہ بشری بی بی پر کرتے ہیں اور انہیں زیادہ تکلیف بھی ان کی گرفتاری پر ہوئی تھی۔ وہ اعلانیہ کئی بار اپنی اہلیہ پنکی پیرنی کو دینی تعلیم کے حوالے سے اپنا مرشد بھی کہہ چکے ہیں ان باتوں سے لگتا یہی ہے کہ عمران خان جلد باقاعدہ پارٹی کی عارضی قیادت اپنی مرشد بشری بی بی کے حوالے کر دینگے۔
تاہم مبصرین کے مطابق عمران خان کو اپنے اس فیصلے پر اپنی بہن علیمہ خان کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی پچھلے چند ماہ میں ایک مضبوط مزاحمتی لیڈر بن کر ابھری ہیں۔ ان کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ صاف گو اور اپنے خیالات کے اعتبار سے یکسو اور واضح ہیں۔ کھل کر وہ ہر بات کہہ ڈالتی ہیں۔ اپنے بھائی کی طرح دبنگ ہیں اور گرفتاری، قید سے نہیں گھبراتیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اب یہ عمران خان پر ہے کہ وہ علیمہ خان کا انتخاب کرتے ہیں یا بشریٰ بی بی کا؟ حالات اور واقعات بہرحال اس طرف جا رہے ہیں کہ کم از کم عبوری مدت کے لیے پارٹی کی ذمہ داری کوئی ایسا فرد سنبھالے جس میں کارکنوں کو عمران خان کی شخصیت نظرآئے۔ اصول یہ کہتا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی یا علیمہ خان ہی ہوسکتی ہیں۔ اگر آل آوٹ وار کی طرف جانا ہے تو پھر علیمہ خان اور اگر سیاست اور احتجاج دونوں کا امتزاج بنا کر چلانا ہے تو پھر بشریٰ بی بی۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کرنا موروثیت کہلائے گا یا نہیں؟ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے ایسے کسی فیصلے پر پارٹی کے اندر سے بغاوت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ شیر افضل مروت اور علی محمد خان جیسے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما ایسے کسی بھی ممکنہ فیصلے پر سخت مزاحمت کا اشارہ دے چکے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں موروثیت کی کوئی جگہ نہیں اور وہ ایسے کسی فیصلے کو تسلیم نہیں کرینگے۔