سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کے ساتھیوں کی جانب سے مسلسل احتجاجی سرگرمیوں اور دھمکیوں سے صاف نظر آ رہا ہے کہ نہ تو 9 مئی کے سانحے سے عمران خان اور نہ ہی انکی جماعت کے کارکنان نے کوئی سبق سیکھا ہے۔ چنانچہ عمران اور ان کے ہیروکاروں کی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی کوئی کمی واقع ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ چنانچہ ایک اور بڑا سانحہ رونما بھی ہو سکتا یے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیہ میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کسر باقی رہ گئی تھی تو عمران خان کے چہیتے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور وہ بھی پوری کر دی یے۔ موصوف نے ایک گولی کے مقابلے میں دس گولیاں مارنے کی دھمکی پر مبنی ایک انتہائی اشتعال انگیز ویڈیو پیغام جاری کیا یے جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگوں کو ریاست کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان کی طرف سے گنڈاپور کو اس بدمعاشی پر شاباشی ہی مل رہی ہے اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک بڑے ٹکرائو کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ جو گولی مارے گا وہ گولی کھائے گا جیسے ویڈیو پیغام جاری کرنا کون سی سیاست ہے؟
انصار عباسی کہتے ہیں کہ تکلیفیں اور مشکلات پہلے بھی سیاسی جماعتیں سہتی رہی ہیں لیکن ان مخں سے کسی نے بھی نہ تو 9 مئی جیسا کعئی واقعہ کیا اور نہ ہی ایک گولی کے بدلے دس گولیاں مارنے کی دھمکیاں دیں۔ پہلے ہی تحریک انصاف کے لوگ سیاسی مخالفت میں دوسروں سے نفرت اور عمران خان کی محبت میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ ملک اب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اور یہ سب صرف اس لیے ہو رہا ہے کہ ان کی اپنی سیاست کو فائدہ پہنچے۔کوئی اپنے ملک کو مشکلات میں دیکھ کر کیسے خوش ہو سکتا ہے؟
عمران خان اور ان کے ساتھی نفرت میں اس حد تک آگے چلے گئے ہیں کہ اپنے ملک کے لیے کوئی اچھی خبر آئے تو وہ ناخوش ہوتے ہیں اور بُری خبر پر خوش ہورے ہیں۔ اور یہ سب صرف اور صرف اس لیے کہ اس میں انکا اپنا سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ معاشی طور پر ملک کے لیے کوئی اچھی خبر آئے تو اُس پر ان لوگوں کے منہ بن جاتے ہیں اور اگر کوئی بڑی خبر سامنے آ جائے تو اُسے خوب اچھالا جاتا ہے، اور یہ سب صرف اس لیے کہ پی ٹی آئی کے مخالف ناکام ہوں اور اپنی سیاست کامیاب ہو۔ اس کے علاوہ یوتھیوں کی جانب سے جھوٹی خبریں بھی پھیلائی جاتی ہیں چاہے اس کا کتنا ہی نقصان اپنے ملک اور اپنی معیشت کو کیوں نہ ہو، پی ٹی آئی والوں کی ساری توجہ صرف ایک نکتہ پر ہے کہ کس طرح اپنے لیڈر اور اُس کی سیاست کو کامیابی ملے۔
انصار عباسی کہتے ہیں کہ کسی پاکستانی کےلیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ اپنی سیاسی کامیابی کےلیے کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے کہ اہنے ہی ملک کو دیوالیہ کرنے کی منصوبہ بندی میں شامل ہو جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے باقاعدہ منصوبہ بنایا جائے کہ پاکستان کو کس طرح سری لنکا بنایا جائے۔ اور پھر جب ایسے ملک دشمن منصوبے پکڑے جائیں اور ان کے ثبوت بھی سامنے آ جائیں تو اس پر شرمندگی کی بجائے بے حیائی کے ساتھ ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا جائے۔
انصار عباسی سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسی سیاست ہے جو نفرت کو اتنا بڑھا دے کہ ملک پیچھے رہ جائے اور اپنے ذاتی ایجنڈے کو فوقیت دی جائے۔ انکا کہنا یے کہ اگر آج پاکستان دیوالیہ ہوتا ہے تو نقصان پاکستانی عوام کا ہے، چاہے اُن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ لہٰذا سوال یہ یے کہ یہ کون سی سیاست ہے؟ اگر پاکستان دیوالیہ ہو گا اور خانہ جنگی ہو گی تو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کمزور ہوں گے جس کا فائدہ کسی ایک رہنما یا سیاسی جماعت کو ہو گا اور اُن کا حکومت میں آنے کا چانس بن جائے گا۔
لہٰذا علی امیں گنڈاپور اپنے صوبے کے لوگوں کو ایک کے مقابلہ میں دس گولیاں مارنے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے کہ ہر چھوٹی بڑی بات پر جیل سے ہدایات جاری کرنے والے عمران خان نے گنڈاپور کی طرف سے خیبرپختون خوا کےعوام کو تشدد کے لیے اکسانے لی نہ مذمت کی اور نہ ہی ان سے فاصلہ اختیار کیا۔ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ عمران خان وزیر اعلی گنڈاپور جیسے مولا جٹ ٹائپ کے کرداروں کو پسند کرتے ہیں، اور اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، انہوں نے اپنی جماعت میں ہمیشہ سے ہی ایسے لوگوں کو اگے کیا ہے جو ان سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ بدتمیزی کرے۔
ایسے شخص کو شاباشی ملتی ہے اور جو شرافت اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر سیاست کرے اُسے ڈانٹا جاتا ہے اور بزدل قرار دے دیا جاتا ہے، چاہے وہ شخص تحریک انصاف کا چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان ہی کیوں نہ ہو۔ سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ عمران نے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کو بھی ایسی ہی نفرت اور منفی سوچ کا مالک بنا دیا اور اُن کے لیے بھی گنڈاپور ایک ہیرو ہے۔ یعنی ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا۔