عمران نے خود تحریک انصاف پرپابندی کی راہ کیسے ہموار کی؟

بانی پی ٹی آئی کے جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی کال دینے کے اعتراف کے بعد پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی راہ ہموار ہونا شروع ہوگئی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نو مئی سے پہلے کے تمام پُر تشدد واقعات نو مئی کے شرمناک سانحے کی کڑی ہیں۔ جو سنگین آئینی اور فوجداری جرم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جبکہ زمان پارک کو قلعہ بند رکھنا، بغاوت، ٹکرائو اور دہشت گردانہ عمل کا واضح ثبوت ہے۔ اب اپنی گرفتاری پر فوجی تنصیبات کے سامنے احتجاج بارے اعترافی بیان سے ثابت ہو چکا ہے کہ 9 مئی کو ہونے والے جلاو گھیراؤ اور شرپسندی کی سازش کا سرغنہ عمران خان تھا۔

ایک رپورٹ کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا اعترافی بیان جرم میں معاونت ، قیادت اور بغاوت کی شہادت ہے جو غیر سیاسی سوچ اور مجرمانہ فعل کی تحریک اور اشتعال انگیزی کا راستہ دکھانے کے مترادف ہے اور سیاسی جماعت ایسے نصب العین اور اعمال کے ساتھ ملکی قوانین کے تحت وجود برقرار نہیں رکھ سکتی۔ عمران خان کے اس اعترافی بیان کے بعد سیاسی طور پر پابندی کی راہ میں تو کوئی رکاوٹ نہیں۔ اگر عدالت اس بیان پر فیصلہ کرتی ہے اور اس بیان کی روشنی میں سزا دیتی ہے تو پھر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا راستہ مکمل طور پر صاف ہوجاتا ہے۔

یاد رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی گرفتاری کی راہ میں طاقت کے بل پر رکاوٹ ڈالنے کیلئے ایک سال سے زائد عرصے تک آبائی رہائش گاہ زمان پارک میں قلعہ بند پناہ لے لی تھی اور پارک و گلیوں پر خیمے رکاوٹیں کھڑی کر کے مسلح کارکنوں کو جمع کرلیا تھا، جسے ایک نئی بستی کا نام دیا گیا تھا اور غیر ملکی بھی مسلح ہوکر یہاں مقیم رہے تھے ان میں سے بعد میں کچھ گرفتار بھی کیے گئے تھے۔ جبکہ گرفتاری میں مزاحمت کیلئے عمر رسیدہ افراد اور کمسن بچے بھی مسلح کیے گئے تھے جس کی وجہ سے پولیس کے متعدد آپریشن نہ صرف مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہوئے بلکہ زمان پارک نو گو ایریا بنا دیا گیا تھا اور شہر کی مرکزی شاہراہ پر پولیس کی گاڑیوں کا داخلہ بھی بند کردیا گیا۔بعض گاڑیاں اہلکاروں سمیت نہر میں پھینک دی گئی تھیں۔ تاہم عمران خان کی اسلام آباد میں نو مئی کو گرفتاری کے بعد لاہو سمیت ملک بھر میں شدید ہنگامے اور توڑ پھوڑ کی گئی تھی جس پر رہنمائوں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں ہوئیں۔ لیکن پی ٹی آئی ان ہنگاموں کی ذمہ داری لینے سے انکار کرتے ہوئے ناقابلِ تردید شواہد کو بھی جھٹلاتی اور سیاسی انتقامی کارروائی دیتی رہی۔ تاہم اب بانی پی ٹی آئی نے خود ہی اعتراف کرلیا کہ انہوں نے ہی کارکنوں کو جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی کال دی تھی۔ جبکہ ماضی میں سیاسی رہنمائوں کی طرف سے ایسی کال دینے کی کوئی روایت نہیں رہی اور نہ ہی عسکری تنصیبات پر حملے کیے گئے۔

بانی پی ٹی آئی کے اعترافی بیان سے پہلے وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا گیا تھا اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی طرف سے اتحادی جماعتوں سے بھی مشاورت جاری ہے۔ جبکہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف کا کہنا ہے کہ عسکری اداروں اور املاک ، شہدا کی یادگاروں پر حملوں کے ماسٹر مائینڈ بانی پی ٹی آئی بانی نے چار ماہ تک منصوبہ بندی کی اور اب خود ہی منصوبہ ساز ی اورسہولت کاری کا اعتراف کر لیا۔ پی ٹی آئی جماعت نہیں، انتشاری ٹولہ ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شرپسندی کے ذریعے ریاست کو نقصان پہنچانا ہے اور شواہد اور ثبوتوں کی موجودگی میں آئین اور قانون پر عمل کرتے ہوئے اس شر پسند، انتشاری ٹولے کے خلاف سخت کارروائی ہونا ضروری ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کیلئے کابینہ کی منظوری سے پہلے یا اس سے کی منظوری سے قبل صوبائی اسمبلیوں سے بھی قراردادیں منظور کروائے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق قراردادیں میں نو مئی سے پہلے کے واقعات کو بھی مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے جس میں پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں ٖغیر اراکین کو بلانے، ڈپٹی اسپیکر پر حملے کا واقعہ قابلِ ذکر ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی کی تاریخ کا سیاہ باب کہلوانے والا یہ واقعہ بھی نو مئی کے واقعات ہی کی ایک کڑی تھی۔

دوسری جانب بانی پی ٹی آئی کے اعترافی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست اور فاشزم میں فرق ہے۔ لیکن بانی پی ٹی آئی نے فاشزم کو فروغ دیا۔ سیاست ، حکومت اور ریاست کی اپنی اپنی تاریخ ہے۔ یہ فاشزم کراچی سمیت سندھ کے کچھ شہروں میں ایم کیو ایم لائی۔ بانی ایم کیو ایم کی طرز پر بانی پی ٹی آئی نے جو کردار ادا کیا وہ اس جماعت کی طرف سے تمام حدیں پھلانگنا کہا جاسکتا ہے۔ماضی میں سیاسی جماعتیں بارہ مئی سمیت دیگر واقعات کی بنا پر ایم کیو ایم کو بھی متفقہ طور پر دہشت گرد قراردے چکی ہیں۔مبصرین کے مطابق اگرچہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بیان کی روشنی میں پی ٹی آئی پر پابندی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ لیکن اگر حکومت اس ضمن میں عدالت سے رجوع کرتی ہے تو فیصلہ عدالت ہی نے کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں