جنرل فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہونے کے بعدسابق ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے نت نئے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں ایک طرف دور اختیار کے دوران جنرل فیض کی سیاہ کاریاں سامنے آ رہی ہے وہیں دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر آصف ہارون راجہ نے دعوی کیا ہے کہ جنرل فیض نہ صرف عمران خان کی گڈ بکس میں شامل تھے بلکہ بشری بی المعروف پنکی پیرنی کے قابل اعتماد لوگوں میں بھی سر فہرست تھے۔
عمران خان کی بشری بی بی سے شادی میں بھی جنرل فیض کا مرکزی کردار تھا۔ آصف ہارون کے مطابق بشریٰ بی بی کے ساتھ فیض حمید کا دو ہزار سولہ میں ہی لنک بن گیا تھا۔ وہ عمران خان کے ساتھ ان کی شادی کرانے کے مرکزی کردار تھے۔ ان کی کاوشوں کے بغیر یہ شادی ممکن نہیں تھی۔ بشریٰ بی بی سے عمران خان کی شناسائی 2015ء میں ہوئی جو بعد ازاں باقاعدہ ملاقاتوں میں بدل گئی۔
فیض حمید ان تمام معاملات سے آگاہ تھے اور وہ تب سے ہی ان دونوں کے قریب تھے اور پھر انہوں نے دونوں کی شادی کو ممکن بنانے میں اپنا رول ادا کیا۔ اس کے نتیجے میں بذریعہ بشریٰ بی بی ان کا اثر و رسوخ عمران خان اور پی ٹی آئی پر بڑھ گیا۔ اس کا فائدہ وہ اپنی سروس کے دوران اور اس کے بعد بھی مسلسل اٹھاتے رہے۔ فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کا اتنا بڑا اسکینڈل جو پی ٹی آئی دور حکومت میں اسٹیبلش ہو چکا تھا اور سپریم کورٹ جا پہنچا تھا۔ اس کے باوجود عمران خان نے بطور وزیر اعظم جب اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل عاصم منیر کو ہٹایا تو ان کی جگہ فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس میں بشریٰ بی بی کی آشیرباد شامل تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فیض حمید دونوں میاں بیوی کے کتنے منظور نظر تھے۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق دوران سروس جنرل فیض حمید کی سرگرمیوں کا مقصد یہ تھا کہ کسی طرح عمران خان کو اقتدار میں لا کر وہ اگلے آرمی چیف بن سکیں۔ مثلاً 2017ء میں جب فیض حمید ڈی جی سی تھے تو ٹی ایل پی کا دھرنا کرایا گیا۔ تاکہ نون لیگ کی حکومت کو گراکر تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا جا سکے۔پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ ہوا۔ انہیں ڈسمس کروایا گیا۔ ان سب کے پیچھے فیض حمید تھے۔ اسی طرح پاناما کیس کی کارروائی میں بھی فیض حمید کا رول تھا۔ اس کیس میں ان کا چیف جسٹس ثاقب نثار سے مکمل گٹھ جوڑ تھا۔ اس دور کے ججز کا پورا ہم خیال گروپ ان کے رابطے میں تھا اور ان کی ہدایات پر عمل کرتا رہا۔ یہ گٹھ جوڑ، کھوسہ اور بندیال کے آنے کے بعد بھی جاری و ساری رہا۔ یہ سارے وہی ججز تھے جو ثاقب نثار کے ہم خیال تھے اور دونوں چیف جسٹس بنے۔
فیض حمید، شہزاد اکبر کو بھی کنٹرول کرتے تھے اور نیب اور ایف آئی اے بھی ان کے اشاروں پر چلتی تھیں۔ ٹاپ سٹی جیسا کرپشن کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا تو تب فیض حمید ڈی جی سی آئی ایس آئی تھے۔ بعد ازاں وہ ڈی جی آئی ایس آئی بن گئے۔ مختصر یہ ساری سرگرمیاں اس وقت کی ہیں جب فیض حمید سروس میں تھے۔ ٹاپ سٹی اسکینڈل کے علاوہ اصل معاملہ جو فیض حمید کے گلے پڑ رہا ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی غیر قانونی سیاسی سرگرمیوں کا ہے، جسے آرمی ایکٹ کی خلاف ورزیوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار آصف ہارون کے مطابق پی ٹی آئی کے معاملات جنرل فیض کے مشورے سے چلائے جا رہے تھے۔ پی ٹی آئی پر فیض حمید کا اثر و رسوخ بشریٰ بی بی کی وجہ سے تو تھا ہی۔ انہوں نے عمران خان کی بہنوں سے بھی اچھے تعلقات بنا لئے تھے۔ عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل سمیت مارچ اور اکتوبر میں لانگ مارچ سمیت جتنے فیصلے کیے۔ ان کے پیچھے فیض حمید ہی تھے۔پی ٹی آئی کے 26 مارچ اور اکتوبر والے دونوں لانگ مارچ کے پیچھے فیض حمید تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح پریشر بڑھا کر جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکا جا سکے۔
پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی حکومتیں بھی عمران خان نے فیض حمید کے کہنے پر تحلیل کی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی وفاق میں حکومت گر جائے گی۔ فیض حمید، عمران خان کے غیر اعلانیہ ایڈوائزر بھی تھے اور ان کے تمام منصوبوں کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ دھرنوں اور لانگ مارچ سے لے کر 9 مئی کے حملوں سمیت پی ٹی آئی کی ہر کارروائی کی اسٹرٹیجک منصوبہ بندی فیض حمید نے تیار کرکے دی۔ عمران خان کے جیل جانے کے بعد پارٹی کے تقریباً تمام معاملات درپردہ فیض حمید نے سنبھال لئے تھے۔
جب تک بشریٰ بی بی گرفتار نہیں ہوئی تھیں تو ان کی فیض حمید سے مشاورت ہوتی رہتی تھی۔ تاہم بشریٰ کی گرفتاری کے بعد فیض حمید پردے کے پیچھے رہ کر تن تنہا پی ٹی آئی کے تمام معاملات چلا رہے تھے، جس کی توثیق عمران خان کیا کرتے تھے۔ چونکہ فیض حمید نے پس پردہ پارٹی کمان سنبھال رکھی تھی۔ لہٰذا انہیں کسی بھی پارٹی فیصلے سے متعلق اپنی ہدایت پر عمل کرانے کے لیے عمران خان سے کہلوانا پڑتا تھا۔
ظاہر ہے کہ وہ خود تو اڈیالہ جیل نہیں جا سکتے تھے۔ چنانچہ بشریٰ بی بی کی گرفتاری کے بعد وہ یہ پیغام رسانی رؤف حسن کے ذریعے کرتے تھے۔ عمران خان کے لیے فیض حمید کی جو بھی ہدایات ہوتی تھیں۔ وہ رؤف حسن جیل میں ملاقات کے دوران عمران خان کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ پاکستان سے پی ٹی آئی کی ساری میڈیا اور سوشل میڈیا وار بھی رؤف حسن چلا رہے تھے۔
دفاعی تجزیہ کار کے مطابق سائفر کو امریکی سازش سے جوڑنے سمیت عمران خان نے اب تک جتنے بیانیے دیئے، ان سب کے موجد فیض حمید تھے۔ وہ جن عہدوں پر رہے، انہیں بخوبی معلوم تھا کہ مضبوط بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے۔اسی طرح فوج میں فیض حمید جن افسروں سے پرخاش رکھتے تھے، انہیں ’ڈرٹی ہیری‘ اور دیگر غلط ناموں سے پکارنے کا آئیڈیا بھی فیض حمید کا دیا ہوا تھا جسے عمران خان نے اختیار کیا۔
بیرون ملک بیٹھے بھگوڑے عادل راجہ، حیدر مہدی، شہزاد اکبر اور چند نام نہاد صحافیوں سمیت ریاست مخالف پروپیگنڈہ میں مصروف دیگر عناصر کو فوج کے اندر کی خبریں بھی فیض حمید پہنچایا کرتے تھے۔ جس میں وہ نوے فیصد جھوٹ شامل کرکے آگے پھیلاتے۔ وزیرآباد میں عمران خان پر حملے سے لے کر ارشد شریف کے قتل اور 9 مئی سمیت دیگر معاملات سے فیض حمید کا لنک بھی جلد سامنے آئے گا۔ ان تمام معاملات پر اداروں نے مکمل نظر رکھی ہوئی تھی اور مسلسل فیض حمید کی سرگرمیوں کو مانیٹر کیا جارہا تھا۔
فوری ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا گیا کہ پورا نیٹ ورک بے نقاب کرنا تھا۔ بریگیڈیئر آصف ہارون کے بقول جنرل فیض حمید وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش بھی کریں گے۔ لیکن لگتا نہیں کہ انہیں وعدہ معاف گواہ بنایا جائے گا۔ کیونکہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ فیض حمید یقیناً 9 مئی کے حوالے سے بھی اہم انکشافات کریں گے جس کے بعد عمران خان کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ اور ثابت ہوگا کہ اس سانحہ کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔ اب تک تو عمران خان اس سے انکار کرتے آئے ہیں۔
لیکن فیض حمید کی ممکنہ گواہی کے بعد وہ انکار کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ 9 مئی کا اسٹرٹیجک پلان فیض حمید نے بنا کر دیا تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی اپنے طور پر ایسے حملوں کی اسٹرٹیجی بناسکتے تھے۔ یہ فیض حمید ہی تھے جنہوں نے پی ٹی آئی کو 255 عسکری ٹارگٹ بتائے تھے اور ساتھ ہی بغاوت میں کامیابی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔