عمران خان کو فوجی عدالت کے ڈراؤنے خواب کیوں آنے لگے؟

9 مئی کو اپنی گرفتاری کی صورت میں جی ایچ کیو سمیت عسکری املاک کے سامنے عوامی احتجاج کی کال دینے کے اعترافی بیان کی بونگی مارنے کے بعد اب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو فوج کی حراست میں جانے بارے ڈراؤنے خواب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی بھی بیان آنے سے پہلے ہی رونا دھونا شروع کر دیا ہے۔ تاہم لاہور ہائیکورٹ نے فوجی عدالتوں بارے عمران خان کی دہائی کو نظر انداز کرتے ہوئے انھیں جھنڈی دکھا دی ہے۔ جس کے بعد اڈیالہ کے قیدی نمبر 804 کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کو اچانک یہ ڈر اور خوف کیوں پیدا ہوا کہ اُنہیں فوج اپنی حراست میں لے سکتی ہے؟ فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے پر عمران خان کس خوف کا شکار ہیں؟

تجزیہ کار اور کالم نویس سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ملک میں اصل لڑائی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کی چل رہی ہے تاہم جوں جوں معاملہ آگے بڑھ رہا ہے فریقین کے پاس آپشنز محدود ہو رہے ہیں۔ جہاں مقتدر قوتیں اپنا لائحہ عمل اپنائے ہوئے ہیں وہیں عمران خان کی بہنیں ہر روز اپنے بھائی کی زندگی کے بارے میں بات کرتی ہیں کہ اُن کے بھائی کی زندگی کو خطرہ ہے۔سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو عدالتیں ریلیف تو دے رہی ہیں۔ لیکن اُن کی جس ‘فریق’ سے لڑائی ہے وہاں سے تو کوئی ریلیف تاحال نہیں ملا۔سہیل وڑائچ کی رائے میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس عمران خان کے خلاف تھی جس میں فوج نے پھر یہ واضح کیا ہے کہ تحریکِ انصاف کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب بات چیت کا دروازہ بند ہو تو پھر تصادم کا راستہ ہی بچتا ہے جو کسی کے بھی حق میں نہیں ہوتا۔ اس لئے دونوں فریقین کو ملکی مفاد کیلئے تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

دوسری جانب انتخابی عمل اور جمہوری اقدار پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ‘پلڈاٹ’ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ عمران خان سے قبل بھی نو مئی کے مقدمات میں بہت سے لوگوں کو فوجی تحویل میں لیا گیا ہے. تاہم عمران خان نے چند روز قبل خود اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی گرفتاری کی صورت میں کارکنوں کو جی ایچ کیو کے باہر احتجاج کی کال دی تھی۔ لہذٰا اس کے بعد اُنہیں فوج کی تحویل میں دیے جانے کی قیاس آرائیاں بڑھ گئی ہیں۔ تاہم عمران خان کی پریشانی بارے سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ سول عدالتیں تو عمران خان کو ریلیف دے رہی ہیں۔ لیکن فوجی عدالتوں سے ریلیف کی توقع ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ اسی لئے عمران خان اپنا کیس فوجی عدالتوں میں لے جانے پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان فوجی تحویل میں جاتے ہیں تو اس سے فوج اور تحریکِ انصاف کارکنوں کے درمیان خلیج مزید بڑھ سکتی ہے۔تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عمران خان فوجی تحویل میں چلے جائیں۔ لیکن سول عدالتیں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما حامد خان سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے بعد سے مسلسل یہ کوشش ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں۔اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف سول عدالتوں، دہشت گردی عدالتوں اور خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہو چکے ہیں جہاں یہ نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کے مقدمات میں کوئی جان نہیں ہے۔حامد خان کے مطابق سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مختلف وقتوں کے مختلف تجربات ہیں۔ اِس سے قبل ماضی کے فوجی ڈکٹیٹروں ایوب خان اور یحیٰی خان کے ادوار میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ تاہم عمران خان کیخلاف اگر فوجی عدالت میں بھی زور زبردستی سے مقدمہ چلایا گیا تو وہ وہاں سے بھی سرخرو ہونگے۔

اپنا تبصرہ لکھیں