بڑھتی ہوئی ملاقاتوں اور ریاست مخالف سازشوں پر قابو پانے کیلئے قیدی نمبر 804 عمران خان کو جلد اڈیالہ جیل سے صوبے کی کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے کا حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔ جہاں نہ تو عمران خان کو اس طرح بے وقت لمبی لمبی ملاقاتوں کی اجازت ہو گی اور نہ ہی بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل کی طرح وہاں پر دیسی گھی میں پکے ہوئے دیسی مرغ پر ہاتھ صاف کر سکیں گے۔ عمران خان کے ساتھ جیل میں اپنے کردہ جرائم کے مطابق پی سلوک کیا جائے گا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ آئندہ مہینے کے اوائل میں اڈیالہ جیل راولپنڈی عمران نیازی کا مسکن نہیں رہے گی اور بانی پی ٹی آئی کو کسی دوسری جیل میں شفٹ کردیا جائے گا۔
ذرائع کے حالات کو دیکھتے ہوئے عمران نے عسکری قیادت سے معافی تلافی پر مبنی سپراندازی کا پیغام بھیج دیا ہے۔ اڈیالہ جیل سے جو پیغامات ارسال کئے جارہے ہیں اس میں غیر مشروط معافی کا سندیسہ بھی شامل ہے، تاہم فوجی قیادت نے عمران خان کے پیغام کو بعد از وقت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کو صورتحال کا بڑی حد تک ادراک ہوچکا ہے اس کے طرفدار ریٹائرڈ شدہ دماغوں نے عمران نیازی کو مشورہ دیاہے کہ وہ منت ترلہ کر کے آخری کوششں کر ڈالیں تاکہ اپنا اور تحریک انصاف کا تحفظ یقینی بناسکیں ذرائع کے مطابق اسی لئے عمران خان پچھلے کچھ روز سے مسلسل فوج کو اپنی سپراندازی کے پیغامات ارسال کررہاہے جبکہ فوجی قیادت نے اس پر کھلے انداز میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں دخیل نہیں ہوگی۔ مبصرین کے مطابق عمران فوج کی اس اعلیٰ ترین شخصیت کو بڑی لجاجت سے پیغام دینے کی کوشش کررہا ہے جس کے بارے میں وہ دریدہ دہنی کا مرتکب ہوتا رہاہے اور محض دو روز قبل تک ان کے اہل خانہ کو اپنی ہرزہ سرائی کا ہدف بنارہا تھا جبکہ عمرانڈو ڈیجیٹل دہشت گرد رات دن اس مذموم مہم میں حصہ لے رہے ہیں اور انہیں عمران خان کی طرف سے لگاتار ہدایات مل رہی ہیں۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران نیازی کو غیر رسمی طور پر آگاہ کردیا گیا ہے کہ آئندہ ماہ اڈیالہ جیل راولپنڈی عمران نیازی کا مسکن نہیں رہے گی انھیں کسی دوسری جیل میں منتقل کردیا جائے گا تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ انھیں ملٹری جیل میں ڈال دیا جائے گا یا ابھی کسی دوسری جیل میں کوئی اور قید خانہ ان کیلئے تیار کیا گیا ہے۔
مبصرین کے مطابق ملٹری جیل میں منتقلی کی افواہوں نے عمران خان کی نیندیں اڑا رکھی ہیں حالانکہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں چھبیس غیر فوجی شہریوں کے ملٹری عدالتوں میں مقدمات چلائے تھے اور اعلیٰ عدلیہ میں شہریوں کے ملٹری ٹرائل کی وکالت کی تھی۔ تاہم اب خود عمران خان اپنے فوجی تحویل میں جانےسے بری طرح خوفزدہ ہے جس کے خلاف اسے لاہور ہائیکورٹ سے بھی تحفظ نہیں مل سکا ہے۔
مبصرین کے مطابق عمران خان بارے مجوزہ کارروائیوں سے یہ تاثر بھی زائل ہوجائے گا کسی ایک ادارے کی جائز و ناجائز حمایت سے کوئی شخص انصاف کے تقاضوں کو شکست دے سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اپنے کیس کی فوجی عدالت میں منتقلی سے اس لئے خوفزدہ ہے کہ فوجی تحویل میں آئے ملزموں اور مجرموں کے لئے قیام اور خوراک کا وہ مینیو نہیں ہوتا جو عام حوالات اور جیل میں مقرر ہوتا ہے ملٹری کورٹس میں زیر سماعت مقدمات کے ملزموں کے ساتھ برتائو ان کے جرائم کی سنگین نوعیت کو پیش نظر رکھ کر عمل میں لایا جاتا ہے ایسے ملزموں سے ان کے عزیز و اقارب کی ملاقاتیں کسی دوسرے ادارے کی ہدایات کے تحت نہیں کرائی جاتیں اس کا نظام الاوقات ملٹری حکام خود وضع کرتے ہیں ملزموں کی انسانی ضرورت کی آسائشیں فراہم کی جاتی ہیں تاہم انہیں رکھے جانے کا مقام خفیہ رکھا جاتا ہے ملزموں سے تفتیش کرنے کے لئے جدید ترین سائنسی اصولوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے اور ان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ کسی بات کو چھپا سکیں یا جھوٹ سے کام لے سکیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دنیا بھر میں فوجی اہلکار جنہیں تفتیش کی تربیت دی جاتی ہے اور وہ سچ اگلوانے کیلئے جوطریقہ کاراختیار کرتے ہیں ان کا قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کو اتہ پتہ ہی نہیں ہوتا۔ مبصرین کے مطابق بعض اوقات اس تفتیش سے ملزم کا ذہنی توازن بھی متاثر ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب اڈیالہ جیل سے جو پیغامات ارسال کئے جارہے ہیں اس میں غیر مشروط معافی کا سندیسہ بھی شامل ہے جسے متعلقہ حلقے اب بعد از وقت قرار دے رہے ہیں۔