عمران خان کا کیس ملٹری کورٹ میں لے جانا مشکل کیوں نہیں ہے؟

آج کل عوامی حلقوں میں اگر مگر کی گفتگو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کچھ برس اور زندہ رہ جاتے تو شاید پاکستانی فوج سیاست میں اس طرح نہ گھستی جیسے اب گھس چکی ہے اور بات شاید جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل تک نہ پہنچتی۔ تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ فیض حمید بھی اسی فوجی نظام کی پیداوار ہے جس نے جنرل حمید گل، جنرل احتشام ضمیر، جنرل احمد شجاع پاشا، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل رضوان اختر اور ان جیسے کئی دوسرے سیاسی جرنیلوں کو جنم دیا۔ لہذا قصور فیض حمید کا نہیں بلکہ اس فوجی نظام کا ہے جو فیض حمید جیسے جرنیل پیدا کرتا ہے۔ یہ اسی سسٹم کا نتیجہ ہے کہ ہمارے سیاست دان پہلے ان جیسے فوجی جرنیلوں کو توسیع دیتے ہیں، اور پھر انکے ہاتھوں فراغت کے بعد یہ رونا روتے ہیں کہ ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلی گئی۔

نیا دور کی ایک رپورٹ کے مطابق جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے اعلان کے بعد اب جیل میں بند عمران خان کو بھی ملٹری کورٹ میں لے جانے کی بات کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آرمی ایکٹ کے تحت کسی سویلین کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن ون ٹو ڈی میں دو ایسی شقیں موجود ہیں جن کے تحت سویلینز کا ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو فوجی کمانڈر کے خلاف بغاوت، فساد برپا کرنے کیلئے اشتعال دلانے، اکسانے یا ترغیب یا تحریک دینے کا سبب بنے تو اس صورت میں فوج میں ان کا ٹرائل ٹو ون ڈی کے تحت ہو سکتا ہے۔

یاد رہے کہ جب عمران خان کے پاس بطور وزیر اعظم اقتدار کی باگ ڈور تھی تب ظفر مہدی کے بیٹے حسن عسکری نے جنرل باجوہ کو ایک خط لکھا تھا جسکی پاداش میں انہیں فوجی عدالت نے سزا سنائی حالانکہ وہ سویلین تھے۔ عمران خان کے دور میں ایک اور شہری ادریس خٹک کا بھی کورٹ مارشل ہوا جسے 14 برس کی سزا سنائی گئی۔ عمران اور جنرل باجوہ کے 6 سالہ دور اقتدار میں مجموعی طور پر 25 سویلین کا کورٹ مارشل ہوا۔

لیکن جمہوریت پسند کل بھی اور آج بھی کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل غلط اور ناجائز سمجھتے ہیں۔ یاد رہے کہ 29 اکتوبر 1958 کو محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب سے ملاقات کر کے پہلے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا لیکن پھر 6 سال بعد ایوب خان کے مقابل صدارتی چناؤ میں انکی جانب سے یہ نعرہ لگا کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔

18 اکتوبر 1999 کو بے نظیر بھٹو نے جنرل مشرف کی بغاوت کو نواز شریف سے نجات قرار دیا اور مئی 2006 میں بے نظیر کو نواز شریف کے ساتھ بیٹھ کر میثاقِ جمہوریت پر دستخط کرنا پڑے۔ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے کو انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں کا سہارا لیتے ہیں اور مخالف سیاست دان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ منظور نظر کو اسٹیبلشمنٹ سے دور کیسے رکھا جائے۔ ہمارے سیاست دان تاریکی میں مقتدرہ کی چوکھٹ پر دست بستہ حاضری دیتے ہیں اور نظرِ التفات کے متمنی رہتے ہیں۔ یادش بخیر، 23 فروری 1951 کو کسی خفیہ اجلاس میں برسرِ اقتدار حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور تختہ الٹنے کے جرم میں ہمارے بے بدل شاعر فیض احمد فیض کو بھی شریکِ جرم ٹھہرایا گیا تھا۔ حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے کو جس کو بعد ازاں راولپنڈی سازش کیس کہا گیا، اس سازش میں ملوث 11 فوجی افسران کے ساتھ 5 سویلین کو بھی سزائیں ہو سکتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ایوب خان اور سکندر مرزا کے خلاف کیوں مقدمہ نہیں چلایا گیا؟

اس سے قبل 1945 میں ایوب خان کو برما کے محاذ پر جنگ میں بزدلی دکھانے پر کمان سے ہٹا کر فارغ کیا گیا اور پاکستان بننے کے بعد عبدالرب نشتر کی رپورٹ پر جناح نے اس کے کورٹ مارشل کا حکم دیا۔ اس کیس کا انکوائری افسر موسیٰ خان تھا جسے بعد ازاں 1959 میں ایوب خان نے فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ دسمبر 1949 کو پاکستانی فوج کے نامزد سربراہ میجر جنرل افتخار خان کی ہوائی حادثے میں پراسرار موت کی تفصیلات تاحال پردے میں ہیں۔ یوں سیاست کے میدان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پیش قدمی بڑھتی گئی۔ 1971 کا تاریخی سانحہ فوجی شکست تھا اور سیاست دانوں کی کوتاہی کا ثبوت یہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد نہ کروا سکے۔ اگر ان سفارشات پر من و عن عمل درآمد کیا جاتا تو شاید دوبارہ فیض حمید جیسے آئینی حدود اور حلف کو پائمال کرنے والے کردار جنم نہ لیتے۔

اسکے بعد 5جولائی 1977 کا سورج طلوع ہونے سے قبل پاکستان میں جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور ملک پر ایک اور مارشل لاء مسلط کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کی آمریت میں سیاست تباہ ہوئی اور مذہب کے نام پر بدترین فسطائیت قائم کر دی گئی۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیا گیا۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ پھر چھوٹے چھوٹے جمہوری نخلستانوں کے بعد ملک آمریت کے طویل ریگ زاروں میں اپنی منزل کھوٹی کرتا رہا۔ اس طرح فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اتنی بڑھ گئی کہ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل مشرف نے بغاوت کر دی۔ آج بھی سیاست دان شکایتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ خفیہ ادارے سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔ اب تو عدلیہ کے ججوں نے بھی ایسی ہی شکایتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔

بہت کم پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 244 میں واضح لکھا ہوا ہے کہ فوجی افسران اور فوج کے جوانوں کو سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ جنرل فیض حمید بھی اس نظام کی پیداوار ہے جس نے جنرل احتشام، جنرل ظہیر الاسلام، جنرل پاشا یا جنرل رضوان جیسے کرداروں کو جنم دیا۔ اس لیے قصور جنرل فیض حمید جیسوں کا نہیں بلکہ اس نظام کا ہے جو فیض حمید جیسے لوگ پیدا کرتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں