اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے مبینہ گٹھ جوڑ اور رابطوں کی تصدیق ہو گئی۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق فیض حمید ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے عمران خان سے رابطے میں تھے، فیض حمید ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ سے جدید اینڈرائیڈ فون کی بجائے پرانے فیچر فون سے رابطہ کرتے تھے، تاکہ ان کی کال ٹریس نہ ہو سکے۔
فیض حمید کو بارہ اگست کو گرفتار کرکے ان سے مذکورہ فون بھی برآمد کرلیا گیا ہے۔ذرائع نے مزید بتایا کہ فیض حمید کی گرفتاری کے دو روز بعد ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کو پکڑ کر ان سے بھی اسی ساخت کا فون برآمد کیا گیا، ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ سے بیان لیا گیا ہے مگر تاحال وہ قانونی طور پر لاپتہ ہیں۔ذرائع نے بتایا کہ ڈپٹی جیل سپرنٹنڈنٹ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی میں گواہ کے طور پر سامنے آسکتے ہیں،
دوسری جانب سینئر صحافی اعزاز سید کے مطابق عمران خان کو اشارے مل گئے ہیں کہ فیض حمید کی گرفتاری کے سارے معاملے میں وہ جُڑ رہے ہیں۔ اسی لئے بانی پی ٹی آئی کی پریشانی میں اضافہ ہو چکا ہے اور وہ جنرل فیض کے اوپن ٹرائل جیسے بے بنیاد مطالبات کرنا شروع ہو گئے ہیں اعزاز سید نے انکشاف کیا کہ تحقیقات کے حوالے سے ہمارے ذرائع نے بتایا ہے کہ فیض حمید عمران خان سے ایک تیسرے فرد کے ذریعے رابطے میں تھے اور وہ فرد ہماری معلومات کے مطابق جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ ’ایسے شواہد ملے ہیں جس سے یہ بات اسٹیبلش ہوتی ہے کہ جنرل فیض اور عمران خان کے درمیان تعلق اور رابطہ بھی تھا اور پیغام رسانی بھی ہو رہی تھی، تاہم چونکہ عمران خان انڈر ریڈار تھے اس لئے رابطہ براہ راست نوعیت کا نہیں تھا، تاہم ہمیں ذرائع بتاتے ہیں دونوں کے درمیان پیغام رسانی بھی تھی، ہاہمی اعتماد اتنا تھا کہ ایک دوسرے کو مشورے بھی دیتے تھے، زیادہ تر مشورے عمران خان ریسیو کرتے تھے‘۔
عمران خان کی طرف سے یہ کہا گیا کہ جنرل ریٹائر ہونے کے بعد کس کام کا ہوتا ہے؟ کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو ریٹائر بندے سے رابطہ کرے؟ اس سوال پر اعزاز سید نے جواب دیا کہ ’عمران خان کا بیان اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے چیف تھے، ان کے پاس معلومات کا سمندر ہے، ریٹائر چیف تھے انہیں نا صرف آئی ایس آئی کی ورکنگ کا پتہ تھا بلکہ آئی ایس آئی کے پاس سیاسی اور ریجنل معلومات تھی یا آئی ایس آئی کی چیزوں کو مانیٹر کرنے کی اس کی پوری معلومات موجود تھی جب آپ کے پاس نظام کی معلومات ہوتی ہے تو اسے بریک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں،
فیض حمید کے پاس سیاسی اور ادارے کی معلومات تھیں لہٰذا ان کے پاس سسٹم کو ڈاچ کرنے کی کیسپٹی تھی‘۔ اس لئے عمران خان ان سے رابطے میں تھے۔قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کے رابطوں سے متعلق سوال پر اعزاز سید نے کہا کہ ’سابق آرمی چیف کے قریبی ذرائع جنرل فیض سے رابطے کی تردید کرتے ہیں، تاہم بعض قریبی ذرائع نے بتایاکہ فیض حمید کی سابق آرمی چیف سے عام انتخابات کے بعد فروری میں ہی ایک ملاقات ہوئی تھی، اس کے بعد کبھی کوئی رابطہ نہیں ہوا، وقتاً فوقتاً فیض حمید واٹس ایپ میسج بھیجتے رہے‘۔
خیال رہے کہ 12 اگست کو پاک فوج نے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو تحویل میں لے کر کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق فیض حمید کےخلاف پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت مناسب انضباطی کارروائی کا آغاز کیاگیا ہے۔
دوسری جانب عمران خان نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے جس پر سکیورٹی ذرائع نے سخت ردعمل دیا ہے۔اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل فیض حمید اور میرا معاملہ فوج کا اندرونی مسئلہ نہیں، میں سول سابق وزیراعظم ہوں مجھے ملٹری کورٹ میں لے جانے سے پاکستان کا امیج خراب ہو گا۔انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) فیض ریٹائرمنٹ کے بعد زیرو ہو گیا مجھے کیا فائدہ دینگے کہ ان سے رابطہ رکھوں۔
عمران خان نے کہا کہ اگر 9 مئی سازش کا مرکزی کردار جنرل (ر) فیض ہے تو میں مطالبہ کرتا ہوں جنرل فیض حمید کا اوپن ٹرائل کیا جائے، اوپن ٹرائل میں میڈیا کو کوریج کی رسائی دی جائے۔ان کا کہنا تھاکہ فیض حمید کے اوپن ٹرائل سے ملک کا فائدہ ہوگا اور پاکستان ترقی کرے گا۔اس معاملے پر سکیورٹی ذرائع نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی بتانے والے کون ہوتےہیں کہ فیض حمید کا ٹرائل اوپن کورٹ میں ہوگا یا نہیں؟ذرائع نے مزید کہا کہ اگربانی پی ٹی آئی کا اس معاملے میں ٹرائل ہوا تو تسلی رکھیں اوپن ہی ہوگا، ساری دنیا کو پتا چلےگا بانی چیئرمین کیا کرتے اور کرواتے رہے ہیں۔
دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کے اوپن ٹرائل کا مطالبہ فوج کے معاملات میں مداخلت ہے ۔ ان کی مسلسل کوشش ہے وہ اپنے بیانات سے اس معاملہ کو متنازعہ بنائیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے ایسے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شدید پریشانی اور تذبذب کا شکار ہیں۔ انہوں نے فیض حمید کیس کو فوج کا انٹرنل معاملہ نہ قرار دے کر ثابت کر دیا کے فیض حمید واقعی بانی چیئرمین کا اثاثہ تھے ۔