مسلم لیگ نون کی حکومت کو اس وقت سیاسی اپوزیشن کی بجائے عدالتی اپوزیشن سامنا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے تمام تر دعوؤں کے باوجود حکومت عدالتی محاذ پر مسلسل پسپا اور عدالتوں سے کسی قسم کا ریلیف حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ اگر کسی عدالت سے کوئی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا بھی ہے تو وہ جلد دوسرے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں حکومت کیلئے لو کا تھپیڑا بن جاتا ہے۔
اقتدار میں ہونے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن کو اگر کہیں سے مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو وہ اس ملک کی عدالتیں ہیں۔اس کے علاوہ ن لیگ کی حکومت کو کسی دوسری سیاسی اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ملک میں اس وقت عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آ چکے ہیں دونوں اداروں میں طاقت کی جنگ چل رہی ہے اور اس طاقت کی جنگ میں جہاں سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی مستفید ہو رہے ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے عدلیہ نون لیگ کو بھرپور رگڑا لگا رہی ہے۔
حالیہ پیشرفت کے مطابق جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے 9 مئی کے 12 مقدمات میں بانی تحریک انصاف عمران کے جسمانی ریمانڈ کو ختم کر دیا تھا۔اس بڑے عدالتی فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر ن لیگ کے حامی افراد نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد علی شاہ سمیت اس کیس کی پیروی کرنے والے وکلا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیے کہ یہ ٹیم اچھے طریقے سے عدالت میں وکالت نہیں کر سکی۔
تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کی لیگل ٹیم تنقید کی زد میں ہے۔اس سے پہلے بھی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پی ڈی ایم کے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو کئی دفعہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ ’مصالحت‘ کے نام پر کئی مقدمات میں حکومت کو نقصان پہنچا چکے ہیں۔
ان دنوں میں بھی کچھ لیگی حلقے وزیر وقانون اعظم نذیر تارڑ کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنا رہے ہیں کہ وہ مؤثر حکمت عملی نہیں ترتیب دے سکے جس کی وجہ سے نہ صرف تحریک انصاف واپس پارلیمنٹ میں آگئی بلکہ آئندہ بھی عدلیہ کی طرف سے مسلم لیگ ن کے لیے خیر کی خبر نہیں ہو گی۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی لیگل ٹیم کی وجہ سے عدالتوں میں ’گھاٹے‘ کا سودا کر رہی ہے؟
اس بات کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کے پرایسکیوٹر جنرل فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ نون لیگ کی قانونی ٹیم پر تنقید کرنے والوں کے مقاصد کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ تاہم ہم نے عدالت کے سامنے پورا کیس رکھا اور بتایا کہ اس کیس میں کسی صورت ریمانڈ ختم نہیں ہو سکتا ہے۔‘ تاہم ’اگر عدالت ہی بات نہ سنے تو وکیل اس میں کیا کر سکتا ہے؟ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ عدالتوں میں فیصلے کیسے ہو رہے ہیں لیکن اتنا کہ سکتا ہوں کہ پراسیکیوشن کے کیس میں کسی قسم کی کوئی غلطی نہیں تھی۔‘انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’ہر موقعے پر ہم نے عدالت کی رہنمائی کی اور بتایا کہ یہ ریمانڈ ختم کرنے کا کیس نہیں ہے۔ اس لئے اس حوالے سے تنقید بلاجواز ہے۔‘
تاہم مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم پر تنقید کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ وہ اپنا کیس ٹھیک سے پیش نہیں کر رہے تاہم ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ عدالتیں سیاسی فیصلے دے رہی ہیں اس میں ٹیم کا قصور نہیں ہے۔پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’یہ دونوں باتیں ہی ٹھیک ہیں۔ بدقسمتی میں بہت کم وقت ایسا دیکھنے کو ملا ہے جب عدالتوں نے خالصتاً آئینی اور قانونی فیصلے کیے ہوں۔ تاہم اکثر بڑے فیصلے سیاسی تناظر میں ہی کیے گئے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’دوسری طرف ن لیگ کی ٹیم نے بھی اپنی نااہلی ثابت کی ہے۔ ایک تیسرا فیکٹر بھی ہے اور وہ یہ کہ ججز اور اسٹیبلمشنٹ آمنے سامنے ہیں۔ ججوں کا غصہ ان کے فیصلوں میں نظر آ رہا ہے جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی گرفت پچھلے کچھ عرصے میں کمزور ہوئی ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ ’اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عدالتی فیصلوں میں سیاسی بو آ رہی ہے لیکن اس کے ساتھ جس طریقے سے عدالتوں کو ہانکنے کی کوشش کی گئی ہے، وہ بھی جمہوری اقدار کے منافی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی قانونی ٹیم کی کمزوریاں بھی نظر آ رہی ہیں لیکن اصل لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور ججوں کی ہے۔‘ جس کا خمیازہ نون لیگ کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔