سپریم کورٹ کے فیصلے نے آئینی ترامیم کی راہ سے تمام رکاوٹیں ہٹا دیں

سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ تحریک انصاف پر نیوکلئیر بم کی طرح گرا ہے کیونکہ اب حکومتی اتحاد کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے سے روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا یے۔ اس فیصلے سے حکومت کو درپیش تمام تر آئینی اور قانونی دشواریاں ختم ہو گئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب حکومت اپنا مجوزہ آئینی ترمیمی پیکج ھی با آسانی پاس کروا لے گی اور ایک نئی آئینی عدالت بھی بنا لے گی جو سیاسی تنازعات کا فیصلہ کرے گی لہذا اب سپریم کورٹ کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا اور وہ مفاد عامہ کے کیسز تک محدود ہو جائے گی۔ با خبر ذرائع کا کہنا یے کہ آئینی ترامیم کا پیکج منظور ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسی اسکے پہلے چیف جسٹس بن جائیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کالعدم قرار دینے کا فیصلہ اس لیے بہت ذیادہ اہم یے کہ اب حکومت مولانا فضل الرحمن کی بلیک میلنگ سے بھی باہر نکل آئے گی۔ اب اگر حکومت اپوزیشن جماعتوں اور آزاد اراکین میں سے کچھ لوگوں کو ترمیمی پیکج کے حق میں ووٹ دینے کے لیے راضی کر لیتی ہے تو جسٹس عمر عطا بندیال کے 2022 کے فیصلے کے برعکس اب پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والے اراکین پارلیمنٹ کے ووٹ شمار کیے جا سکیں گے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا دیا گیا فیصلہ آئین کے منافی قرار دے دیا ہے۔ فائز عیسی کے بینچ کے مطابق اگر کسی رکن پارلیمنٹ کا ووٹ ہی شمار نہیں ہوتا تو پھر اس پر فلور کراسنگ کا قانون بھی نہیں لگ سکتا، یعنی اگر فلور کراسنگ کا جرم ہی سرزد نہیں ہوا تو پھر اس ناکردہ جرم پر نااہلی کی سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔

یاد ریے کہ یہ فیصلہ تب آیا تھا جب عمران خان وزیراعظم تھے اور اپوزیشن جماعتیں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ تب یہ افواہیں گرم تھی کہ تحریک انصاف کے دو درجن سے زائد اراکین اسمبلی تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالیں گے لہذا جنرل فیض حمید کہ مشورے پر صدر عارف علوی نے تب کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک صدارتی ریفرنس ڈالتے ہوئے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی رکن پارلیمنٹ اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو اس کا ووٹ کیوں شمار کیا جائے۔ عمر عطا بندیال کے پانچ رکنی بینچ نے اس ریفرنس پر یہ فیصلہ دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے رکن پارلیمنٹ کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا اور وہ نااہل بھی قرار پائے گا۔

اس دوران جب پنجاب میں وزیر اعلی بننے والے حمزہ شہباز شریف کو اپوزیش کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے کہا گیا تو تحریک انصاف کے 19 اراکین پنجاب اسمبلی نے ان کے حق میں ووٹ ڈال دیا۔ تحریک انصاف نے یہ 19 ووٹ کینسل کروانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا، چنانچہ عمر عطا بندیال نے توقع کے عین مطابق ایک عمراندار جج کا کردار ادا کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں پڑنے والے پی ٹی آئی کے 19 ووٹ کینسل کرتے ہوئے انہیں شمار کرنے سے روک دیا اور ان اراکین اسمبلی کو نااہل بھی قرار دے دیا۔
یوں حمزہ شہباز وزارت اعلی سے فارغ ہو گئے اور پرویز الہی وزیر اعلی بن گئے۔ اس فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی اپیل کو جسٹس عمر عطا بندیال نے کبھی سنا ہی نہیں۔ اس اپیل کو دائر ہوئے دو برس سے زیادہ ہو چکے تھے لہازا جسٹس قاضی فائز عیسی یہ اپیل سنی اور عطا بندیال کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ پہلے جسٹس منصور علی شاہ نے اس اپیل کو لگانے کی راہ میں روڑے اٹکائے اور پھر جسٹس منیب اختر نے بھی اہنا حصہ ڈالا، لیکن فائز عیسی نے نیا بینچ تشکیل دے کر ارٹیکل 63 کی تشریح کو غلط قرار دیتے ہوئے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والے اراکین کا ووٹ شمار کرنے کا فیصلہ دے دیا ہے۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ نظر ثانی اپیل پر دیا گیا ہے۔ اس اپیل میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اگر کسی رکن پارلیمینٹ پر فلور کراسنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا بھی ہے تو پہلے اس کا ووٹ شمار کیا جانا چاہیے۔ اب وقاقی حکومت کی مجوزہ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے والوں پر فلور کراسنگ قانون تو اپلائی ہو گا لیکن ان کا ووٹ شمار ہو جائے گا اور یوں حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ جو اراکین پارلیمنٹ حکومتی پیکج کے حق میں ووٹ ڈالنے پر ناہل قرار پائیں گے انہیں دوبارہ سے الیکشن لڑوا کر پارلیمنٹ کا حصہ بنا دیا جائے گا۔

اس سے پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔ تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے تاہم بعد ازاں انہوں نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سماعت کا حصہ بننے سے انکار کر دیا جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیے۔

چیف جسٹس نے نظرثانی اپیلی کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نظرثانی اپیل متفقہ طور پر منظورکی جاتی ہے، کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے، ایک طرف کہا گیا کہ ووٹ رکن پارلیمینٹ کا بنیادی حق ہے، لیکن دوسری جانب یہ بنیادی حق پارٹی کی ہدایت پر ختم بھی کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جج کون ہوتا ہے یہ کہنے والا کہ کوئی رکن منحرف ہوا ہے، یہ پارٹی سربراہ کا اختیار ہے کہ وہ کسی رکن کو منحرف ہونے کا ڈیکلریشن دے یا نہ دے، انکا کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی یا سیاسی جماعتیں کسی جج یا چیف جسٹس کے ماتحت نہیں ہوتیں، سیاسی جماعتیں اپنے سربراہ کے ماتحت ہوتی ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کا انتخاب کون کرتا ہے، عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ارکان پارلیمان اپنے پارلیمانی لیڈر کا انتخاب کرتے ہیں، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ دینے کا حق تو رکن پارلیمنٹ کا ہے، یہ حق سیاسی جماعت کا کیسے کہا جاسکتا ہے۔ اس دوران چیف جسٹس نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ ایک پارٹی سربراہ کا اختیار ایک جج استعمال کرے تو کیا یہ جمہوری ہو گا، جج تو منتخب نہیں ہوتے، انحراف کے بعد کوئی رکن معافی مانگے تو ممکن ہے پارٹی سربراہ معاف کردے، اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ 63 اے کے فیصلے میں لکھا ہے ہارس ٹریڈنگ کینسر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ غلط الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جج صرف یہ طے کر سکتا ہے کوئی چیز آئینی و قانونی ہے یا نہیں، یہ کوئی میڈیکل افسر ہی بتا سکتا ہے کہ کینسر ہے یا نہیں۔ علی ظفر نے کہا کہ ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے یا نہ دینے کی ہدایت پارلیمانی پارٹی دیتی ہے، جس کی ہدایت پر عمل نہ کرنے پر پارٹی سربراہ نااہلی کا ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس حساب سے تو پارٹی کے خلاف ووٹ دینا خودکش حملہ ہے، ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا اور نشست سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، اگر کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے متفق نہ ہو تو وہ مستعفی ہوسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو جمہوریت کے بالکل خلاف بات کر رہے ہیں، تاریخ یہ ہے کہ مارشل لا لگے تو سببججز ربڑ اسٹیمپ بن جاتے ہیں۔ اس دوران جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں ووٹ نہ گنے جانے کے حوالے سے قانون سازی کیوں نہ کی، تب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے والی تھی، لہازا سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کردیا گیا، اس وقت پارلیمنٹ کی جگہ سپریم کورٹ کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ریفرنس دائر کرنے کے بعد ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیر اعظم کے خلاف دائر تحریک عدم اعتماد بھی اڑا دی، پھر چیف جسٹس سے سپریم کورٹ کے کچھ ججز نے رابطہ کیا تو اس معاملے پر سوموٹو لیا گیا اور تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری ہو سکی۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کے ارٹیکل 63 اے کا فیصلہ صرف ایک جج کے مارجن سے اکثریتی فیصلہ ہے، کیا ایک شخص کی رائے پوری منتخب پارلیمان پر حاوی ہو سکتی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت اس لیے ڈی ریل ہوتی رہی کہ یہ عدالت غلط اقدامات کی توثیق کرتی رہی، لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں