حکومت 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترامیم کیوں منظور کروانا چاہتی ہے؟

سپریم کورٹ کے عمراندار ججز کے ساتھ جاری محاذآرائی کی وجہ سے اتحادی حکومت ہر صورت 25 اکتوبر سے قبل آئینی ترمیمی پیکج منظور کروانے کیلئے پرعزم ہے کیونکہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی 25 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت کو قانون سازی میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جسٹس فائز عیسی کے بعد جسٹس منصور علی شاہ سمیت سپریم کورٹ کا عمراندار ججز کا ٹولہ کبھی بھی حکومت کو کوئی بھی ایسی آئینی ترمیم نہیں کرنے دے گا جو نہ صرف ان کے اختیارات کم کرے بلکہ وہ ان کے عمرانی مشن کی تکمیل میں کسی قسم کی رکاوٹ بنے۔

اسی لئے اتحادی حکومت ہر صورت آئینی ترامیم کا معاملہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے قبل اگلے چند دنوں میں انجام تک پہنچانے کیلئے کوشاں ہے۔تاہم مخصوص نشستوں بارے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد شہباز حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے آرٹیکل 63 اے بارے سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے عمراندار ٹولے کی جانب سے مخصوص نشستوں بارے تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد آزاد اراکین ہی ایک ایسی امید ہیں جن کے ذریعے سے حکومت فوری آئینی ترمیم منظور کروانے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔

آج کل پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 63 اور 63 اے میں شامل شقوں کے حوالے سے سیاسی ہنگامہ آرائی اپنے عروج پر ہے۔ تاہم سوال پیداہوتا ہے کہ یہ آرٹیکل 63 اور 63 اے کیا ہیں؟ قانونی ماہرین کے مطابق آرٹیکل 63 اور 63 اے میں فرق صرف اتنا ہے کہ 63 اے میں پارٹی کے ساتھ مخلص ہونے پر زور دیا گیا ہے اور آرٹیکل 63 میں قومی اسمبلی کے ممبر کی نااہلی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کون کون سےبجرائم سرزد ہونے پر کسی بھی ممبر کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک اہم نقطہ جو اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے وہ یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کا کوئی رکن پارٹی لیڈر کی اجازت کے بغیر اسمبلی میں ووٹ ڈالے۔

وہ چاہے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی سیٹ کے حق یا خلاف ہو، بجٹ، معیشت کے حوالے سے کوئی ترمیم ہو یا پھر دوسرا قانونی بل ہو۔ اگر پارٹی رکن متعلقہ سیاسی جماعت کے لیڈر کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالے تو پارٹی لیڈر یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس کی ممبرشپ کو ختم کرنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کر دے۔ مگر اس سے پہلے متعلقہ پارٹی لیڈر کو اس رکن قومی اسمبلی کے نام شو کاز نوٹس جاری کرنا پڑے گا اور اس میں اس سے وضاحت طلب ہو گی۔ اور پھر اس کے بعد سپیکر کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں درخواست دائر کی جائے گی۔ اور الیکشن کمیشن 30 دن کے اندر اس کے خلاف ایکشن لینے کا پابند ہو گا تاکہ اس کی اسمبلی کی ممبرشپ کو ختم اور اس کی نشست کو خالی کر کے دوبارہ الیکشن کرایا جائے گا۔

مگر اس میں ایک اہم نقطہ یہ بھی سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمان کے معاملے میں ممبرز اسمبلی پارلیمانی لیڈر کا فیصلہ مانیں گے، پارٹی لیڈر کا نہیں۔ عمران خان جو کہ بانی اور سابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ہیں لیکن رکن قومی اسمبلی نہیں ہیں، اب اگر وہ پارٹی ممبران کو اسمبلی میں آنے والے کسی ترمیمی بل کے حق یا خلاف فیصلہ دینے کا حکم دیں تو ضروری نہیں کہ ان کی بات کے برخلاف جانے والے اسمبلی ممبر کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ اس لئے تمام ارکان پارلیمانی لیڈر بیرسٹر گوہر کے حکم کے تابع ہوں گے۔ تاہم یہاں ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے آزاد جیتنے والے اکثریتی اراکین سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق آزاد رکن اسمبلی کا ایک بار کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد پیچھے ہٹنے ممکن نہیں۔

تاہم سپریم کورٹ کے عمراندار ججز مخصوص نشستوں بارے فیصلے آزاد اراکین کو پی ٹی آئی میں دوبارہ شمولیت کی اجازت دے چکے ہیں ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حمایت سے اسمبلی میں پہنچنے والے آزاد اراکین اب کس جماعت کے پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کے پابند ہونگے اور حکومت کے حق میں ووٹ دینے کی صورت میں کس پارٹی لیڈر کی درخواست پر انھیں نااہل کیا جائے گا؟ مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی میں اس حوالے سے پیدا شدہ کنفیوژن کی وجہ سے پی ٹی آئی کے باغی اراکین نااہلی سے بچ جائیں گے۔

خیال رہے کہ آرٹیکل 63 آئین میں 2010 میں شامل ہوا تھا اور پھر اس میں ترامیم 2017 میں ہوئیں۔ اس کے بنیادی مقاصد یہ تھے کہ کسی طرح ‘ہارس ٹریڈنگ’ اور ‘فلور کراسنگ’ کو روکا جا سکے۔ یہ معاملہ 2022 میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ میں لایا گیا جب اس وقت کے صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر کے رائے مانگی تو سپریم کورٹ میں موجود عمرانی ٹولے نے نہ صرف پارٹی لیڈر کی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے والے کو نااہل قرار دیا بلکہ آئین سازی کرتے ہوئے متعلقہ پارٹی رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے کا بھی فیصلہ سنا دیا۔ تاہم عدالتی فیصلے کو نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ قانونی حلقوں نے بھی خلاف آئین قرار دیا اور فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستیں دائر کر دیں۔

جن کی سماعت اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجز بنچ کر رہا ہے اور اب5 رکنی بینچ نےآرٹیکل 63 اے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلیں منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے جس سے اسمبلی میں موجود تمام اراکین کو یہ حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ پارٹی لیڈر کی ہدایات کے برعکس اپنی مرضی سے ووٹ ڈال سکیں اور ان کا ووٹ تو شمار ہو گا لیکن آرٹیکل 63 اے کے مطابق وہ نااہل ہو جائیں گے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں ہی موجودہ حکومت آئینی عدالت بنانے کی کوشش میں کامیاب ہو سکے گی۔ کیونکہ حکومت کو عدالتی اصلاحات بارے آئینی ترمیم کی منظوری کے لئے دو تہائی اکثریت درکار ہے جے یو آئی کے نخرے دکھانے کے بعد اب حکومت کیلئے پر ٹی آئی آزاد اراکین کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں