گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے بعد بلوچستان حکومت نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت تین ہزار سے زائد افراد کو فورتھ شیڈول میں شامل کر دیا یے جن میں طلبہ رہنما، سماجی کارکن اور صحافی شامل ہیں۔ دوسری جانب متائثرہ افراف کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے دہشتگردی کا سنگین اور جھوٹا الزامات لگا کر جعلی بیانیے کے تحت انہیں فورتھ شیڈول میں شامل کرنے سے بلوچستان میں پرامن سیاسی و جمہوری جدوجہد کا دروازہ بند کر کے بلوچ نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جس کا ریاست کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔
یاد رہے کہ انسداد دہشتگردی کے قانون 1997 کے مطابق اگر کوئی خفیہ ادارہ صوبائی حکومت کو کسی ایسے شخص کے بارے میں بتائے جس کی کسی کالعدم تنظیم سے بالواسطہ یا بلاواسطہ وابستگی ہو تو اُسے ایک زیر نگرانی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جسے فورتھ شیڈول کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اگلے تین برس تک زیر نگرانی رہتے ہیں اور انہیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہرنگ بلوچ نے بتایا کہ فورتھ شیڈول میں ہمارے بہت سے کارکنوں اور حمایتیوں کے نام شامل کر کے انہیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہزاروں افراد پر مبنی اس فہرست کو ابھی تک عوامی سطح پر جاری نہیں کیا گیا اس لیے یہ کبھی بھی کسی کی بھی گرفتاری کے لیے استعمال ہو سکتی ہے، اب لوگوں کو ڈرانے کے لیے ان کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کیے جا رہے ہیں اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ آپ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سرگرمیوں میں شامل ہوں گے تو گرفتاری آپکا مقدر ہے۔ بلوچ قوم پرست خاتون رہنما نے کہا کہ ’یہ وہی رویہ ہے جو ریاست کی جانب سے بلوچستان کے لیے کبھی نہیں بدلا ہے۔ اس طریقہ کار سے جو بلوچستان کی عوام اب سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے انھیں ہراساں کیا جا رہا تاکہ وہ ریاست کے لیے کام کریں اور کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں۔‘
ایسا ہی ایک کی عابد میر کا یے جو کہ نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اب اچانک ان کا تبادلہ ڈیرہ بگٹی کر دیا گیا اور ان کا نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ دسمبر 2024 تک سٹڈی لیو پر تھے اور اصولاً اس دوران ان کی ٹرانسفر نہیں ہو سکتی، لیکن اپنے مضمون میں اعلٰی ڈگری لینے والے ٹیچر کو پوسٹ گریجویٹ کالج سے اٹھا کر ڈیرہ بگٹی میں پوسٹ کر دیا گیا ہے۔ انکا کہ اس ہے کہ ان کا تعلق ایک مسلح تنظیم سے جوڑنے کا الزام نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ یہ ایک سرکاری ملازم کے کریئر اور ایک پرامن شہری کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے، اس الزام کے بعد سے میری فیملی، بیوی بچے، والدین ذہنی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ عابد میر درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں جن میں کہانیاں اور تراجم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شش ماہی رسالہ مہر نامہ بھی شائع کرتے ہیں اور اردو مضمون کے لیکچرر ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انہوں نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فورتھ شیڈول میں اپنا نام سوشل میڈیا پر دیکھا ہے، حالانکہ وہ صرف سماجی تحریریں لکھتے ہیں۔ انکا کہنا یے کہ انہوں نے ایسا کبھی کچھ نہیں لکھا جسے ملک دشمنی کے زمرے میں شامل کیا جا سکے، اور انہوں نے ہمیشہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر بات کی ہے۔
دوسری جانب گلزار دوست کا نام بھی فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے جو تربت میں جبری گمشدگیوں اور دیگر مقامی مسائل کے حوالے سے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ بلوچ یکہجتی کمیٹی کے اسلام آباد میں دھرنے میں بھی شریک رہے۔ اس سے قبل وہ خود بھی تربت سے کوئٹہ تک پیدل مارچ کر چکے ہیں اور حکومت کی جانب سے ان کا تعلق کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ سے جوڑا گیا ہے۔ گلزار دوست کا کہنا ہے کہ ’فورتھ شیڈول میں نام ہونے کی وجہ سے وہ جس ضلع میں ہیں اُسی ضلع میں نظر بند رہتے ہیں۔ ضلع کے باہر نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً پولیس تھانے میں حاضری یا آگاہ کرنا ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انکا نام ایک مزاحمتی تنظیم سے جوڑا گیا ہے جبکہ مزاحمتی تنظیموں سے انکا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں فقط ایک سیاسی و سماجی کارکن ہوں لیکن حکومت جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اس کا نقصان یہ ہوگا کہ پرامن سیاسی جدوجہد کرنے والے بھی عسکریت پسندوں کی طرف دھکیلے جائیں گے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر متعدد ایسے نوٹیفیکشین موجود ہیں جن میں حکومت کی جانب سے فورتھ شیڈول میں شامل کیے جانے والے شخص کا نام تو تحریر ہے لیکن اس کا تعلق کسی کالعدم جماعت سے ظاہر نہیں کیا گیا صرف لفظ ’کالعدم جماعت‘ تحریر کیا گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ شخص تین سال تک زیر نگرانی رہے گا۔حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ ’حکومت اور ضلعی انتظامیہ کے پاس قانونی طور پر یہ اختیار موجود ہے کہ کسی بھی شخص کا نام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رپورٹ پر فورتھ شیڈول میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے یہ تو واضح نہیں کیا کہ ان افراد کی تعداد کتنی ہے جن کے نام 22 جولائی کے بعد فورتھ شیڈیول میں شامل کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’فورتھ شیڈول کے معاملے پر کچھ سیاسی رہنماؤں کے بتائے گئے اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ نئے یا پرانے نام ملا کر بھی تعداد اتنی نہیں جتنی ظاہر کر کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔‘ دوسری جانب صوبائی وزارت داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ گوادر میں راجی مچی یعنی قومی اجتماع کے بعد سے بلوچستان کے مختلف اضلاع سے 300 کے قریب لوگوں کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے 130 کے قریب لوگوں کا تعلق کوئٹہ سے ہے جبکہ باقی افراد کا تعلق دیگر بلوچ آبادی والے اضلاع سے ہے اور ان میں زیادہ تر نوجوان ہیں۔