حکومت اورعمران کے مابین مذاکرات آگے کیوں نہیں بڑھ پا رہے؟

بلندوبانگ دعوؤں اور منتوں ترلوں کے بعد شروع ہونے والے حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ جہاں ایک طرف تحریک انصاف تحریری طور پر اپنے مطالبات سامنے لانے سے گریزاں ہے وہیں حکومت ٹھوس مطالبات پیش نہ کئے جانے تک مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے انکاری ہو گئی ہے۔فریقین کے مابین اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان ہونیوالے مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے تحریری طور پرمطالبات نہ دینے پر مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہوئے، جس کے بعد سپیکر ایاز صادق بھی مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس بلانے سے گریزاں ہیں، مذاکرات کاتیسرا دور کب ہوگا، کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔ذرائع کے مطابق مذاکرات آگے بڑھانے کیلئے حکومت نے پی ٹی آئی سے تحریری طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنے اور طے شدہ باتوں پر کاربند رہنے کیلئے تحریری معاہدہ کا بھی مطالبہ کر دیا ہے۔

حکومتی ذرائع کا بتانا ہے کہ تحریک انصاف کا تحریری طور پر مطالبات نہ دینا ڈیڈ لاک کی وجہ بنا ہوا ہے ۔حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کو تمام صورتحال سے آگاہ کردیا ہے ۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری مطالبات سامنے آنے تک مذاکراتی عمل آگے نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے رہنما مذاکرات کے تیسرے دور سے قبل عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے خواہاں ہیں۔ اس ملاقات میں پارٹی رہنماؤں اور عمران کے مابین مذاکرات کی شرائط ، طریقہ کار اور پی ٹی آئی کی جانب سے جو پیشکش کی جانی ہے ان کی جزیات بارے مشاورت ہو گی ۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے اس حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو آگاہ کر دیا، ذرائع سپیکر آفس کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کی عمران خان سے ملاقات کے بعد مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے گا۔

تاہم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تحریک انصاف اپنے دو مطالبات پر قائم ہے تو آخر وہی دو مطالبات تحریری شکل میں دینے سے انکاری کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں وزیردفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی زبانی کلامی مذاکرات چاہتی ہے، جو کچھ وہ زبانی کہہ رہی ہے وہ لکھ کر دینے کیلئے تیار نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نیت میں فتور ہے۔ خواجہ آصف نے مزید کہاکہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ تحریری مطالبات پیش نہیں کریں گے اور زبانی کلامی بات کرنا چاہیں گے ،میرے خیال میں پی ٹی آئی والے ایسا اس لئے کررہے ہیں کہ کل اگر خدانخواستہ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو وہ اپنے انکار کی پالیسی کو سیو کررہے ہیں کہ ہم نے یہ تو نہیں کہا تھا، اگر وہ تحریری مطالبات دے دیں گے تو پھر تو ایک ثبوت ہوجائے گا کہ انہوں نے یہ فیورز مانگی تھیں اور مذاکرات ان نکات کے اوپر کیے تھے ، تحریری مطالبات سامنے نہ لانے سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی نیت کا فتور سامنے نظرآرہا ہے ۔

خواجہ آصف نے کہاکہ اگر پی ٹی آئی والے مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ تحریری طور پر مطالبات پیش کردیں ورنہ یہ سلسلہ آگے چلتا نظر نہیں آ رہا۔ تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق وہ عمران خان سمیت اسیر پارٹی رہنماؤں کی رہائی اور جوڈیشل کمیشن کے قیام کے دو مطالبات پر قائم ہیں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور مذاکراتی کمیٹی کے رکن اسد قیصر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہم نے جو باتیں میٹنگز کے دوران کہی ہیں، وہ منٹس بن چکی ہیں انہیں ہی تحریری مطالبات سمجھا جائے، کاغذ دینا نہ دینا فارمیلٹی ہے، ہم کسی صورت مذاکراتی عمل کو نقصان نہیں پہچانا چاہتے جب وقت آیا تو اپنے مطالبات تحریری صورت میں بھی سامنے لے آئیں گے۔دوسری جانب تحریک انصاف کی جانب سے تحریری طور پر مطالبات سامنے نہ لانے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا بنیادی مطالبہ عمران خان کی رہائی ہے جسے وہ تحریری طور پر نہیں دینا چاہتے چونکہ وہ سمجھتے ہیں اس سے این آر او یا ڈیل کا تاثر جائے گا۔

مذاکرات میں بیٹھنے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ تحریک انصاف نے موجودہ نظام کو قانونی طور پرکم سے کم نصف تو تسلیم کر لیا ہے تاہم مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے فریقین لچک کا مظاہرہ کریں اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں۔ مذاکرات کے لیے دو چیزیں لازمی ہوتی ہیں جن میں سے اپنی غلطی تسلیم کرنا سرفہرست ہے لیکن فریقین میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری مذاکرات سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جاسکتیں کیونکہ پی ٹی آئی کی ٹیم بااختیار نہیں ہے انہیں ہر بات کا مشورہ عمران خان سے کرنا پڑتا ہے تاہم حکومت اتنی آسانی سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دیتی۔ لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا جس کی وجہ سے مذاکرات نتیجہ خیز ہونا ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں