ایران کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد ایک بڑی علاقائی جنگ کے خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں، ایسے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا یے کہ جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے پاکستان پھر سے ایک فرنٹ لائن سٹیٹ بننے جارہا ہے جس میں اسے یا تو ایران کے ساتھ اور یا اس کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا، لیکن دونوں صورتوں میں پاکستان سنگین مشکلات کا شکار ہو جائے گا۔
ایسے میں زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ انتشاری سیاست کے امین عمران خان نے ریاست کی قیمت پر اپنی سیاست بچانے کیلئے ایک بار پھر ڈی چوک میں دھمال ڈالنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ اس فیصلے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج ملنے کے بعد معیشت مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کیلئے چین اور ملائیشیا کے وزرائے اعظم اسلام آباد آرہے ہیں اور کپتان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک بار سیاسی و معاشی استحکام آ گیا تو انکی سیاست ختم ہو جائے گی۔
معروف لکھاری اور تجزیہ کار بلال غوری روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیلی جارحیت کو ہمیشہ سے امریکی اشیر باد حاصل رہی ہے اور جب معاملات ایک حد سے گزرنے لگتے ہیں تو پھر مداخلت کرکے جنگ بندی کروا دی جاتی ہے۔ مگر اس بار بائیڈن انتظامیہ کی ڈھلمل پالیسی کی وجہ سے یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور پھر حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کی شہادت پر منتج ہوا۔فلسطینی رہنما کو مارے جانے پر ایرانی حکام نے جس طرح میزائل حملوں کے ذریعے خفت مٹانے کی کوشش کی، اس پر بہت تنقید ہوئی تھی، لہازا اس بار دیوار سے لگائے جانے پر میزائیل حملوں سے بھرپور جواب دینے کے علاوہ ایران کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔اطلاعات یہ ہیں کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر 180 بیلسٹک میزائل داغے گئے جنہیں میزائل شکن نظام نہیں روک پایا اور بیشتر میزائل نشانے پر لگنے کے باعث بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔اگرچہ فی الحال باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ ایرانی میزائل کہاں کہاں گرے اور نقصانات کا تخمینہ کیا رہا لیکن ایرانی حکام کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس حملے میں 20 اسرائیلی جنگی جہازوں کو ہوائی اڈوں پر ہی تباہ کردیا گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہ معلومات تو مل رہی ہیں کہ کئی میزائل اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کی ایئر بیس پر گرے لیکن ان حملوں میں جنگی جہازوں کے تباہ ہونے کے دعوئوں کی فی الحال تصدیق نہیں ہوسکی۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو یقینا یہ ایران کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔
بلال غوری کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکا م کی طرف سے فی الحال نقصانات کی تفصیل تو نہیں بتائی گئی البتہ یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ ایران نے حملہ کرکے بہت بڑ ی غلطی کی ہے، یہ بھی کہا گیا کہ ایران کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور اب جوابی حملے کے لئے وقت اور جگہ کا انتخاب اسرائیل کرے گا۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے بھی ایران کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی ہے۔
ممکن ہے اسرائیل کی طرف سے آنے والے دنوں میں ایران کے جوہری پلانٹس اور تیل کے کنوئوں کو نشانہ بنایا جائے ،اس کارروائی میں امریکہ کے براہ راست ملوث ہونے کی صورت میں روس ایران کی مدد کو آسکتا ہے اور یہ لڑائی ایک علاقائی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ ایران افغانستان یا پھر عراق کی طرح تر نوالہ تو ثابت نہیں ہوگا لیکن اپنے دفاع کیلئے اسے اتحادیوں کا تعاون درکار ہوگا ۔واضح رہے کہ روسی وزیراعظم 30 ستمبر کو تہران پہنچے تھے اور ان کے رُخصت ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی ایران نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اس کامطلب ہے کہ ایران نے روس کو اعتماد میں لینے کے بعد یہ قدم اُٹھایا ہے ۔جس طرح امریکی تائید و حمایت کے بغیر اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا، اسی طرح ایران بھی روسی حکام سے مشاورت کئے بغیر کوئی بڑا قدم اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ اس جنگ کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بلال غوری کہتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب آپ کے ساتھ والے گھر میں آگ لگتی ہے تو آپ اس آتشزدگی سے متاثر نہ بھی ہوں تو اس کی حدت ضرور آپ تک پہنچتی ہے۔ طویل تغیر و تبدل کے بعد پاکستانی معیشت بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں، اگر مشرق وسطیٰ کی اس کشمکش نے علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر لی تو اس لڑائی میں سب سے زیادہ پاکستان ہی متاثر ہوگا۔ سب سے پہلا نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخ جن میں مسلسل کئی ماہ سے مندی کا رجحان دیکھنے کو مل رہا تھا ،ان کی قیمتوں میں تیزی آئے گی تو پاکستان کا امپورٹ بل بڑھ جائے گا۔
باقاعدہ جنگ چھڑ جانے کی صورت میں ہم ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے ہوں گے ۔امریکہ کی طرف سے دو آپشن دیئے جائیں گے ،یا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف۔ پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا ہر اعتبار سے مشکل ہوگا کیونکہ ہمیں علاقائی، سفارتی اور معاشی نزاکتوں کومد نظر رکھنا ہوگا۔ اگر ہم امریکی کیمپ میں جانے کا فیصلہ کریں گے تو بعض دوست ممالک کی طرف سے ناقابل اعتبار اور موقع پرست کہلائیں گے۔ جس طرح ہمیں افغانستان میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کاشت کی گئی نفرت کی طالبانی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے، اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہمیں ایران میں بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔اگر ہم اس لڑائی میں ایران کا ساتھ دینے کا فیصلہ کریں گے تو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی ۔ہم تو پاک ایران گیس پائپ لائن کا فیصلہ کرنے کے بعد امریکہ دبائو برداشت نہیں کر پائے اور اس ڈیل سے پیچھے ہٹ گئے تو اتنی بڑی لڑائی میں دریا کے مخالف سمت کیسے تیر سکیں گے؟
لہٰذا بلال غوری کا کہنا ہے کہ ہم سب کے حق میں بہتر یہی ہوگا کہ اس طرح کے مشکل ترین انتخاب کا موقع ہی نہ آئے اور جنگ کے بادل چھٹ جائیں ۔ایرانی تو برسہا برس سے پابندیوں کو جھیل رہے ہیں، اور ابتلاو آزمائش کے عادی ہوچکے ہیں، کیکن ہم اس لڑائی میں بالواسطہ طور پر ملوث ہونے کی قیمت بھی نہیں چکا پائیں گے۔