یوتھیے مخالفین کے خلاف عورت کارڈ کیوں استعمال کرتے ہیں؟

پاکستانی سیاست میں پچھلے کچھ عرصے سے اپنے مخالف کے خلاف ریپ کا جھوٹا الزام عائد کر کے عوامی جذبات بھڑکانے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کا گھٹیا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔

سیاست میں اس طرح کے جھوٹے الزامات اکثر ایک واضح منصوبہ بندی کا حصہ ہوتے ہیں، جن کا اصل مقصد اپنے مخالف کی کردار کشی کر کے اپنا ایجنڈا آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ پچھلے دو برس میں ایسے پانچ واقعات ہوئے جب ریپ کے الزام کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، ان میں سے زیادہ تر جھوٹے الزامات تحریک انصاف سے منسلک لوگوں نے عائد کیے اور انہیں جنگل کی آگ کی طرح پھیلانے کے لیے ہمیشہ سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔

ایسا ایک تازہ ترین واقعہ پنجاب کالج میں ایک خاتون طالبعلم کے مبینہ ریپ کا تھا جو کہ اب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکا ہے۔ ماضی کی طرح، اس بار بھی PTI کے حامیوں اور اس کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے اس جعلی کہانی کو پھیلانا شروع کر دیا۔ تاہم، مکمل تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ پنجاب کالج کے کسی بھی کیمپس میں ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا اور نہ ہی کسی ریپ وکٹم کا کوئی وجود ہے۔

عمران خان کے حامیوں نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اس جھوٹے واقعے کو نہایت تیزی اور شدت کے ساتھ بطور ہتھیار استعمال کیا۔ بیرون ملک بیٹھ کر ریاست پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے سابق میجر عادل راجہ کی جانب سے ایک جھوٹی ٹویٹ کے بعد کپتان کے یوتھیوں نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کر دیا جس کے بعد مختلف شہروں میں پنجاب کالج کے کیمپسز پر حملے شروع ہو گئے۔

PTI کے حامیوں نے بغیر کسی تصدیق کے اس کہانی کو حکومت کے خلاف بھی استعمال کیا، اور پنجاب گروپ آف کالجز کے کرتا دھرتا میاں عامر محمود کو ٹارگٹ کر لیا۔ اس کے بعد پنجاب حکومت کو بھی اس جھوٹی کہانی میں گھسیٹنے کی کوشش کی گئی تا کہ نظام کی ناکامی اور ظلم کی ایک اور جھوٹی داستان کا بیانیہ بنایا جا سکے۔

تاہم وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی پریس کانفرنس نے جھوٹ کے اس غبارے کو بری طرح پنکچر کر دیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے ریپ کے الزامات کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان انتہائی تشویشناک ہے۔ اس قسم کے دعوے نہ صرف اخلاقی لحاظ سے قابل مذمت ہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کی بنیادی جڑوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔

یہ سچ اور انصاف کے حصول کو مشکل بنا دیتے ہیں، قوم کو مزید تقسیم کرتے ہیں، اور حقیقی ریپ کے متاثرین کے لیے مدد اور انصاف کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ پنجاب کالج کی طالبہ کے ساتھ ریپ کا سفید جھوٹ پھیلانے سے پہلے تحریک انصاف نے ماضی قریب میں ایسے ہی چار ریپ کے جھوٹے قصے گھڑے تھے۔

یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں سے پہلے کپتان کے یوتھیوں نے یہ جھوٹے دعوے کرنا شروع کر دیے تھے کہ ان کی ورکرز کو پنجاب پولیس ان کے گھروں میں گھس کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا رہی ہے۔

پاکستانی گوئبلز عرف عمران خان کے فالورز کی جانب سے یہ الزامات سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے اور PTI کے حمایتی میڈیا آؤٹ لیٹس نے انہیں بار بار دہرایا، تاکہ عوام میں کپتان کے لیے ہمدردی اور فوج اور حکومت کے خلاف نفرت کی فضا بنائی جا سکے۔

لیکن، ان دعوؤں کے برعکس، کوئی ایک ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ پنجاب پولیس نے ان الزامات کو واضح طور پر مسترد کیا تھا کیونکہ کسی طرف سے کوئی ایک رسمی شکایت بھی درج نہیں کروائی گئی تھی۔

یہ واہیات الزام PTI کے اس بڑے منصوبے کا حصہ تھا جس کے تحت ریاستی مشینری کو ظالم اور جابر کے طور پر پیش کیا جانا تھا۔

یاد رہے کہ یہ الزامات ان لوگوں نے عائد کی ہے جنہوں نے بعد میں فوجی تنصیبات پر حملے کیے۔ اس قسم کے الزامات نہ صرف حقیقی مظلوموں کی توہین کرتے ہیں بلکہ جنسی زیادتی جیسے حساس موضوع کو سیاسی فائدے کے لئے ہتھیار بناتے ہیں۔

9 مئی کے پرتشدد احتجاجوں کے بعد، جب PTI کے حامیوں نے فوجی اور ریاستی املاک پر حملے کیے اور حکومت نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع کی تو پی ٹی آئی نے ایک مرتبہ پھر اسی ہتھیار کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ عمران کے یوتھیوں نے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر یہ پروپگنڈا شروع کر دیا کہ گرفتار کی گئی خواتین کو حراست کے دوران ریپ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تاہم پی ٹی آئی کوئی ایک بھی ایسی خاتون سامنے نہیں لا سکی جس سے زیادتی کی گئی ہو۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور آزاد تحقیقات نے بھی ان الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ یہ الزامات بھی پہلے کی طرح، عوام کی توجہ PTI کے پرتشدد حملوں سے ہٹا کر حکومت کے مبینہ مظالم پر مرکوز کرنے کی کوشش تھے۔

PTI اور اس کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے جھوٹی کہانیوں کے ذریعے عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی تا کہ حکومت کو ظالم اور خود کو مظلوم کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

اس دوران ایک اور عجیب واقعہ تب پیش آیا جب PTI کے یوتھیوں نے دعویٰ کیا کہ کرغزستان میں ان کی پارٹی سے جڑی خواتین طلبہ اور صحافیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

PTI کے حلقوں نے فوراً پاکستانی حکومت کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا، اور یہ بیانیہ بنایا کہ حکومت بیرون ملک اپنے شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئی ہے۔

لیکن، ماضی کی طرح، یہ دعوے بھی حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترے۔ اس کے باوجود، PTI کے سوشل میڈیا بریگیڈ نے اس جھوٹی کہانی کو پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، تاکہ حکومت کی ناکامی کی ایک اور تصویر پیش کی جا سکے۔

تاہم گوئبلز کے جھوٹ کا یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا۔ پاکستان کے یوم آزادی، یعنی 14 اگست 2024 کو، ایک اور سنسنی خیز دعویٰ سامنے آیا۔ ایک خاتون نے خود کو بیلجیئم کی شہری اور PTI کی ورکر بتاتے ہوئے ریپ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ یہ کہانی فوراً سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی اور PTI کے میڈیا اثر و رسوخ رکھنے والوں نے اسے عوامی غصہ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا۔

لیکن، جلد ہی یہ دعویٰ جھوٹا ثابت ہو گیا۔ خاتون کی اصل شناخت کی تصدیق نہ ہوسکی اور تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ محض ایک افسانہ تھا۔

تاہم، تب تک یہ جھوٹی کہانی عوامی جذبات کو بھڑکا چکی تھی اور پی ٹی آئی سے سیاسی فائدہ اٹھا چکی تھی۔

اپنا تبصرہ لکھیں