پروجیکٹ عمران کو مکمل طور پر لپیٹنے کی تیاریاں مکمل

ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کےلیے انٹرا پارٹی انتخابات کے بھوت سے پیچھا چھڑانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔اس حوالے سے پی ٹی آئی کے تمام تاخیری حربے غیر مؤثر ہونے کے بعد پارٹی الیکشن کا معاملہ اپنے منتطقی انجام کو پہنچتا دکھائی دیتا ہے۔ پارٹی آئین اور الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق انٹراپارٹی انتخابات کروانے میں ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کو ڈی لسٹ کیے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی جانب سے رواں برس تین مارچ کو تیسری بار کرائے گئے انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی الیکشن کمیشن نے غیر شفاف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ جب کہ پانچ مارچ کو پی ٹی آئی کے باغی رہنما اکبر ایس بابر نے ان پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواست جمع کرائی تھی۔ جس میں الیکشن کو فراڈ قرار دیتے ہوئے حتمی قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ جس کے بعد لگ بھگ پچھلے سات ماہ کے دوران الیکشن کمیشن نے متعدد بار پی ٹی آئی کے وکلا کو پانچ مارچ کو کرائے گئے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کی تھی ۔ تاہم حسب روایت پی ٹی آئی ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔

کیس کی ہر سماعت پر کوئی نہ کوئی بہانہ کیا گیا اور الیکشن کمیشن سے مہلت مانگی گئی ۔ اس دوران پی ٹی آئی اسلام آباد سیکریٹریٹ پر ایف آئی اے کے چھاپے کا واقعہ ہوگیا تو پی ٹی آئی کو ایک نیا بہانہ مل گیا اور الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تمام دستاویزات پی ٹی آئی سیکریٹریٹ پر چھاپے کے دوران اٹھالی گئیں ۔ لہٰذا اب وہ یہ ڈاکومنٹس کیسے جمع کرائیں؟ جب کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی پارٹی کو اپنے انٹرا پارٹی الیکشن کے سات دن بعد دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کروانی لازمی ہیں۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ دستاویزات جمع کرانے میں تاخیری حربوں کے پیچھے اصل خوف یہ کار فرما ہے کہ ان ڈاکومنٹس کی جانچ پڑتال کے بعد الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں فراڈ کے دستاویزی شواہد مل جائیں گے۔ جس کے بعد پارٹی کو ڈی لسٹ کیے جانے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ پچھلے تقریبا سوا دو برس کے دوران تحریک انصاف تین مرتبہ انٹرا پارٹی الیکشن کراچکی ہے۔ لیکن ہر بار الیکشن ایکٹ کی شقوں کے برخلاف الیکشن کرائے گئے۔ چنانچہ تینوں بار الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا۔

ذرائع کے مطابق پارٹی الیکشن سے متعلق دستاویزات جمع نہ کرانے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کے فیصلے کا انتظار تھا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا خیال تھا کہ سپریم کورٹ کے وضاحتی آرڈر کے بعد الیکشن کمیشن میں زیر سماعت انٹرا پارٹی الیکشن کیس غیر مؤثر ہو جائے گا اور اس کی جان چھوٹ جائے گی ۔لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے” کے مصداق یہ امید بر نہیں آسکی۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کی جانب سے وضاحتی حکمنامے کے بعد اب تفصیلی فیصلہ بھی آچکا ہے۔ لیکن اس فیصلے پر مستقبل قریب میں بھی عملدرآمد کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔

الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر تحریک انصاف نے اگلی دو تین سماعتوں میں بھی الیکشن کمیشن میں دستاویزات جمع نہ کرائیں اور مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا تو پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے حتمی ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ جس کے تحت پارٹی کو ڈی لسٹ یاڈی نوٹیفائی کرنا خارج از امکان نہیں ۔

یادر ہے کہ چند روز پہلے جے یو آئی (ف) کے انٹرا پارٹی الیکشن کی سماعت کے موقع پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے پر انتخابی نشان لیے جانے کے ساتھ پارٹی ڈی نوٹیفائی بھی ہوسکتی ہے۔ یادر ہے کہ رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں پی ٹی آئی کی چاروں متفرق درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔ ان درخواستوں میں انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا تھا۔

کیس میں مزید التوا مانگا گیا تھا۔ جب کہ کیس کی کارروائی مخصوص نشستوں سے متعلقسپریم کورٹ کے فیصلے تک مؤخر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ تاہم تاخیری حربوں سے متعلق پی ٹی آئی کی یہ تمام درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی18 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے موقع پر پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے الیکشن کمیشن سے دس دن کی مہلت مانگی تھی ۔

جس پر ممبر الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا نے ریمارکس دیئے تھے کہ پانچ برس کے اندرا نٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن دو کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔ دوران سماعت بنچ نے الیکشن کمیشن حکام سے یہ سوال بھی کیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو ہم اب بھی تسلیم نہیں کرتے تو پی ٹی آئی کا مستقبل کیا ہوگا ؟“۔ جس پر ڈی جی پولیٹیکل فنانس نے بینچ کو بتایا کہ پارٹی کا کوئی تنظیمی ڈھانچہ نہیں رہے گا۔ تاہم اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں انٹر پارٹی انتخابات میں فراڈ کرنے کا معاملہ تحریک انصاف کے گلے کا طوق کیسے بنتا ہے؟

اپنا تبصرہ لکھیں