بنگلہ دیش کی حالیہ طلباء تحریک نے شیخ حسینہ واجد کی شخصی آمریت کے خلاف جو کامیابی حاصل کی ہے، اس سے متاثر ہو کر پاکستانی طلباء بھی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ یاد رہے! اس تحریک میں صرف پی ٹی آئی فالورز ہیں۔ یہ خود باہر سڑکوں پر نہیں آنا چاہتے بلکہ انہیں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لانے کی کوششیں جاری ہیں، تاکہ پس پردہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہو گا کہ عمران خان کو رہا کرو بس۔ اگر یہ ملکی مفاد کے لئے نکلتے تو اس میں ساری سیاسی جماعتوں کے فالورز ہوتے اور ایجنڈا صرف ملکی مفاد ہوتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ نوجوان خون تھوڑا تیز ہوتا ہے پھر وہ اپنی لیڈرشپ سے بھی ناراض ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ لیڈرشپ کو عمران خان کی رہائی کے لئے جیسی تحریک چلانی چاہئے تھی وہ اس سے کترا رہے ہیں۔
یعنی صورتحال جوں کی توں نہیں رہ سکتی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی رہائی کی رفتار بھی تھوڑی سی تیز ہو چکی ہے۔ اب رہا ہونے والوں کو نئے مقدمات میں دوبارہ گرفتار بھی نہیں کیا جا رہا۔ اس سے لگتا ہے کہ معاملہ کچھ صلح صفائی کی طرف جا رہا ہے۔ اس بات کا بھی بہت امکان ہے کہ عدالتیں فارم پینتالیس اور سینتالیس کے مقدمات کے بھی جلد فیصلے سنانا شروع کر دیں۔ ایسی صورت میں ایوانوں میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی چاہتے ہیں کہ عوامی احتجاج نو مئی جیسا نہ ہو- وہ سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے احتجاج کو کچھ لوگوں نے ہائی جیک کر کے ایسا کچھ کیا جس کے بارے میں پی ٹی آئی کبھی سوچ بھی نہیں سکتی۔
ان کے خیال میں کچھ لوگوں نے جال بچھایا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس میں پھنسا دیا۔ وہ نہیں چاہتے کہ پی ٹی آئی کے کارکن دوبارہ کسی جال میں پھنسیں۔ نو مئی جیسے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے طالب علموں کے والدین بھی اپنے بچوں کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے سے ڈر رہے ہیں، کیونکہ والدین کو سیاست سے زیادہ اپنے بچوں کا وجود اور ان کا مستقبل عزیز ہوتا ہے۔ ویسے بھی ایسی تحریکوں اور احتجاجوں میں زیادہ تر گاؤں کے اور آوارہ نوجوان شامل ہوتے ہیں، اچھے خاندانوں اور اچھے تعلیمی اداروں کے لائق طالب علم شامل نہیں ہوتے، کیونکہ وہ اپنی تعلیم پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان نے یوتھ کا ایسا برین واش کیا ہے کہ ان کو سمجھانا اور کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔ مجھے اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ جمہوریت کے تعطل کا دورانیہ زیادہ نہیں بڑھایا جا سکتا۔ مارشل لاء بھی لگایا جا سکتا ہے، مگر اس سے پاکستان کے حالات بہتر ہو نے کی بجائے اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں یہ پانچویں بڑی تبدیلی ہو گی۔ پہلی نیپال، دوسری افغانستان، تیسری سری لنکا چوتھی بنگلہ دیش۔ ان چاروں ملکوں کے حالات تقریباً ایک جیسے تھے اور ایک ہی طرح کا رد عمل سامنے آیا اور ایک ہی طرح کی تبدیلی رونما ہوئی۔
اب یہ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کی ایک بڑی تبدیلی یا انقلاب پاکستان میں بھی برپا ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حالات بنگلہ دیش سے مختلف نہیں ہیں۔ غربت، بےروزگاری، مہنگائی اور انصاف کی عدم دستیابی کے حالات بنگلہ دیش سے کہیں زیادہ خراب ہیں۔ وہاں شیخ حسینہ نے معاشی طور پر بنگلہ دیش کو مضبوط کیا تھا مگر اس کے آمرانہ رویے اور غیر جمہوری نظام اور بےروزگاری کے خلاف عوامی احتجاج نے اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔یہاں حالات زیادہ خراب ہیں۔
حکومت معاشی طور پر مستحکم نہیں۔ بےروزگاری اور مہنگائی اپنی انتہا کو چھو رہے ہیں۔ آئی پی پیز اور بجلی کے بلوں کا معاملہ احتجاجی رنگ پکڑ رہا ہے۔ بظاہر تحریک نظر نہیں آرہی جس سے حکومت کو خطرہ ہو، تاہم چنگاری اندر ہی اندر سلگ ضرور رہی ہے جو کسی وقت بھی شعلہ بن سکتی ہے اور شعلے آگ کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ہمارے حکمرانوں کے پاس ابھی اصلاح احوال کا وقت ہے، وہ صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کو سلجھا سکتے ہیں، وگرنہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے حالات ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقے کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ اداروں کو اپنی اپنی حدود وقیود میں رہ کر عام آدمی کی فلاح اور بہتری کے لیے خلوص نیت سے کام کرنا چاہیے، وگرنہ ردٍعمل کے طور پر کیسا منظر نامہ ہوگا اس کی سب سے بڑی مثال بنگلہ دیش سامنے ہے۔