عروف اینکر پرسن اور تجزیہ کا نسیم زہرا نے کہا ہے کہ جب تک بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ نہیں رکے گا اور سیاسی جدوجہد چھوڑ کر عسکریت پسندی اپنانے والوں کے ساتھ ڈائیلاگ کا آغاز نہیں ہوگا تب تک بلوچستان سے بد امنی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوگا۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ بلوچستان میں حالات کو سلجھانے کی خواہش تو ہر دور میں ظاہر کی گئی ہے۔ لیکن اصل سوال ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ بگڑے ہوئے حالات کو سمجھنے اور پھر سلجھانے کےلیے حکومت کتنی حکمت اور فراست دکھاتی ہے۔ اس فہم اور فراست کے بغیر نہ تو ریاستی طاقت اور نہ سیاسی جوڑ توڑ کسی کام کے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان میں جب بھی قوم پرستوں کے خلاف طاقت کا استعمال کیا گیا اس کے منفی نتائج ہی سامنے آئے۔ آج کے بلوچستان کے حالات سے زیادہ اور کونس سچ اس حقیقت کی عکاسی کر سکتا ہے۔ اصل مسئلہ نیتوں کا نہیں، سمجھ اور اہلیت کا ہے۔
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد ایک نئی اور ریاست کو سنبھالنا ہمالیہ سے کہیں زیادہ اونچی ذمہ داری تھی۔ پاکستان کا قیام ایک عظیم رہنما کی قیادت میں عمل میں آیا۔ لیکن اگر پاکستان کے حالات سے پوری واقفیت رکھنی ہے تو یہ جاننا لازمی ہے کہ پاکستان کس بے سروسامانی کی حالت میں وجود میں آیا، جناح نے ایک نئی ریاست کی بنیاد نہایت مشکل سیاسی، اقتصادی، مالی، سماجی اور نظریاتی حالات میں ڈالی تھی، لیکن قائد کے جانے کے بعد حالات کی سنگینی بڑھتی چلی گئی۔ہماری خارجی مشکلات نے اندرونی حالات میں اور بھی بگاڑ پیدا کیا۔ اس کا نقصان سب سے زیادہ بلوچستان کے ان لوگوں کو ہوا اور ہوتا رہا ہے۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں امن اور سدھار لانے کے لیے ان کو اپنے آئینی یعنی جائز حقوق دینا ہوں گے۔ ریاست سے اعتماد کا رشتہ لازم ہے۔ اعتماد یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہی ہوتا ہے۔ گزرے ہوئے کل سے سیکھنا ہے نہ کہ ماضی کی غلطیوں میں ڈوب جانا ہے۔
ایسے میں بلوچستان میں تین فوری اقدامات لازم ہیں: پہلا جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، دوسرا بلوچ عوام کی حقیقی سیاسی نمائندگی، اور تیسرا بلوچستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ کی ڈائیلاگ کی شروعات۔
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ جنوبی افریقہ کے مثالی رہنما نیلسن منڈیلا نے عملاً دکھایا کہ کیسے بدترین حالات میں نفرتوں کے بھنور سے بچ کر نکلا اور جیتا جاتا ہے۔ یہی ایک کامیاب قیادت کا طرہ امتیاز ہوتا ہے، خاص کر وہ قیادت جس کو خارجی دشمنوں کی بجائے اپنوں کی سازشوں کا سامنا ہو۔
اب کون کتنا قصور وار ہے، اس بحث کو طول مت دیجیے۔ اس سے نہ بلوچستان کے لوگوں کی تکالیف اور شکایات کم ہوں گی اور نہ ہی ریاست استحکام پیدا کر پائے گی۔