محسن علی گودارزی
یہ بدنصیب انسان جنید حفیظ ہے، جو بہاءالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں لیکچرر تھا. انتہائی ذہین اور تعلیمی کوالیفیکیشن نہایت شاندار کارکردگی، تقریباً آٹھ سال قبل اس بدقسمت نے یونیورسٹی میں ایک سیمینار کروایا جس کے بعد چند طلباء نے اس پر گستاخی رسول کا الزام لگایا اور اسے گرفتار کر لیا گیا.
جنید کا تعلق راجن پور سے ہے اور ایف ایس سی میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ مل گیا، لیکن اسے انگلش لٹریچر سے دلچسپی تھی، لہٰذا اس نے میڈیکل کے فرسٹ پروفیشنل کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج چھوڑ کر بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں انگلش لٹریچر میں داخلہ لے لیا اور بی اے آنرز میں 38 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 3.99 GPA سکور کیا. جنید پاکستان بھر کے ان 5 طلباء میں شامل تھا، کہ جن کو شاندار کارکردگی کی بنیاد پر Prestigious فل برایئٹ سکالرشپ پر امریکہ میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیئے منتخب کیا گیا تھا.
جنید نے امریکہ کی جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی سے امریکی لٹریچر، فوٹوگرافی اور تھیٹر میں ماسٹرز ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور اپنا ایم فِل کرنے پاکستان واپس آ گیا، گویا اس نے لاعلمی میں بدقسمتی کی جانب سفر اختیار کر لیا. پاکستان پہنچ کر اسے بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں لیکچر منتخب کر لیا گیا.
یونیورسٹی میں بحیثیت مجموعی کنزرویٹیو ماحول تھا، تاہم انگلش ڈیپارٹمینٹ کی سربراہ شیریں زبیر کی بدولت ڈیپارٹمینٹ کا ماحول خاصا ریلیکسڈ اور پرسکون تھا. جنید عموماً خواتین کے حقوق کے Activists کو لیکچر کے لیئے بلا کر سیمینار کرواتا تھا، تاکہ ان کا طلباء کے ساتھ interaction بھی ہو سکے.
پھر وہ دن آن پہنچا جس دن بدقسمتی نے جنید حفیظ کے در پر دستک دی. جنید نے وائس چانسلر سے اجازت لے کر ایک سیمینار کروایا، جس میں معروف ویمن ایکٹیوسٹ قیصرہ شاہراز کو مدعو کیا. قیصرہ PTV کے لئے ایک ایوارڈ یافتہ سیریل بعنوان “دل ھی تو ہے” بھی لکھ چکی تھیں.
قیصرہ کے لیکچر کے اختتام پر چند طلباء نے قیصرہ اور جنید پر چند گستاخانہ کلمات کی ادایئگی کا الزام لگایا. ان الزامات پر جنید حفیظ کو فوری گرفتار کر لیا گیا، جبکہ ڈیپارٹمینٹ کی سربراہ شیریں زبیر اورقیصرہ شاہراز کی قسمت اچھی نکلی اور وہ فوری بیرون پاکستان منتقل ہو گئی. ابتدائی سماعت میں استغاثہ نے ایک گواہ پیش کیا، اس گواہ نے سیمینار کے حوالہ سے تو کچھ نہیں کہا، البتہ جنید کی بعض تحریروں میں گستاخانہ مواد کا الزام لگایا. ان تحریروں میں ردوبدل کیا گیا تھا، کیونکہ جنید نے چند کلمات کی خود سے منسوب ہونے کی سختی سے تردید کی ہے، دلچسپ بات یہ ہے، کہ جب گواہ سے کہا گیا کہ وہ تحریریں پڑھ کر سنائے اور گستاخانہ مواد کی نشاندہی کرے، تو گواہ نے اعتراف کیا، کہ تحریریں چونکہ انگریزی میں ہیں اور وہ انگریزی نہ تو پڑھ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے.
بہرحال پولیس نے جنید کو لاھور سے گرفتار کیا اور ملتان لائے، پھر اسے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا. اس کا کمپیوٹر ضبط کر لیا گیا اور اس سے بغیر کسی عدالتی حکم کے زبردستی اس کا پاس ورڈ اگلوایا گیا. اس کے خلاف پہلے ذکر کردہ Doctored دستاویزات کی روشنی میں پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت بلاسفیمی کا مقدمہ درج کر لیا گیا، یہ مارچ سن 2013 کا احوال ہے. انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس اور معروف وکلاء کی رائے میں جنید کے خلاف پیش کردہ مواد کی روشنی میں بلاسفیمی کا مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے. بہرحال اصل بدقسمتی کا آغاز جنید کی گرفتاری کے بعد ہوا.
جنید کو ساہیوال جیل میں گزشتہ قریب ساڑھے سات سال سے رکھا گیا ہے. اسے بستر وغیرہ کی کوئی سہولت نہیں اور سنگلاخ فرش پر سوتا ہے، گرمیوں میں شدید گرمی اور سردیوں میں سخت سردی کا سامنا کرتا ہے. سب سے اذیت ناک بات یہ ہے، کہ اس کے کیس میں تاریخوں پر تاریخیں پڑتی جا رہی ہیں اور بحث کی نوبت ہی نہیں آتی ہے. اس کی فیملی اور والدہ بیٹے کی گرفتاری سے تاحال گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، کسی شادی بیاہ یا تقریب میں نہیں جا سکتیں، جبکہ اس کے ضعیف والد ہر ہفتے 200 میل کا سفر کر کے بیٹے سے ملنے جاتے ہیں، جن سے جیل سٹاف نہایت بدتمیزی سے پیش آتا ہیں اور کبھی انہیں بیٹے سے ملنے دیا جاتا ہے اور کبھی بنا ملے واپس بھیج دیا جاتا ہے. بوڑھا آدمی کہتا ہے، اب میں تھکتا جا رہا ہوں، لیکن کیا کروں بیٹے کو بے یارو مددگار تو نہیں چھوڑ سکتا ہوں _!!!
جیل میں جنید کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، اب وکلاء کی صورتحال بھی دیکھ لیں. جنید کا مقدمہ کوئی وکیل لیتا ہی نہ تھا اور اس کے والد نے بڑی تگ و دو کر کے ایک وکیل مدثر کو اس کے کیس کی پیروی کے لئے آمادہ کیا، لیکن پہلے ہی دن تقریبًا 200 وکلاء نے اس کا محاصرہ کر لیا اور اسے ڈرا دھمکا کر کیس کی پیروی سے دستبردار کروا دیا. ایسی زیادتی دیکھ کر ہیومن رایئٹس کمیشن کے سربراہ آئی اے رحمان نے کہہ سن کر کمیشن کے ملتان کے آرگنایئزر راشد رحمان کو جنید کی پیروی کے لئے آمادہ کیا. راشد نہایت کامپیٹینٹ وکیل تھے، انہوں نے کیس کا مکمل مطالعہ کیا، یونیورسٹی کیمپس جا کر چھان بین بھی کی تھی اور کیس مکمل سمجھ لیا. راشد وہی وکیل ہے، جنہوں نے ملتان میں سینیٹرشیری رحمان کے خلاف درج بلاسفیمی کیس کی پیروی کر کے ان کی لو خلاصی کروائی تھی، جس پر دوسرے وکلاء نے انہیں مارا پیٹا بھی تھا، لیکن بہادر آدمی تھا، تمام خدشات کے باوجود جنید کا کیس پکڑ لیا.
راشد کی پہلی پیشی پر ہی وکیل استغاثہ نے چند دوسرے وکلاء کے ہمراہ جج کے سامنے عدالت میں راشد کو دھمکی دی، کہ کیس کی پیروی چھوڑ دو، ورنہ اگلی پیشی پر حاضر نہ ہو پاؤ گے، پھر حقیقتاً ہی وہ اگلی پیشی پر نہ آ سکے.
چند دن بعد7 مئی سن 2014 کے دن راشد کو نامعلوم افراد نے دفتر میں گھس کر گولی مار کر راہی عدم کر دیا،
انتہا تو یہ ہے، کہ دھمکیوں کے پیش نظر HRCP نے پنجاب حکومت سے تحریراً راشد رحمان کی حفاظت کی استدعا بھی کی تھی، لیکن خادم اعلٰی سمیت کسی نے توجہ ہی نہ دی تھی. راشد کے انتقال کے بعد مسلسل دربدر ہونے کے بعد لاہور کے ایک بہادر وکیل نے ستمبر سن 2014 میں کیس لے لیا تاہم اس کی استدعا یہ ہے، کہ اول تو اس کا نام میڈیا میں نہ لیا جائے، دوئم کیس کی سماعت لاہور میں ہو گی. اب کیس مسلسل رواں ہے، تاریخوں پر تاریخیں پڑتی ہی رہتی ہیں، لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوتی ہے اور جنید آنکھوں میں اس دن کے خواب بسائے منتظر ہے، کہ جب اس کے کیس میں بحث شروع ہو گی اور وہ اپنی بے گناہی ثابت کرے گا. اگر میری معلومات غلط نہ ہو، تو جنید اس وقت سینٹرل جیل ملتان کے ہائی سیکیوریٹی وارڈ نمبر 2 میں مقید ہے.
اس کا نام آج بھی جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی Mississippy امریکہ کے Honor بورڈ پر ہے اور وہ خود ملتان جیل کے فرش پر بیٹھا رہتا ہے.
کیا اس دنیا میں کوئی اتنی طاقت رکھنے والا انسان ہے، جو کہ اس بندے کی مدد کو آ سکے _؟؟؟
شاید نہیں، کوئی نہیں ہے __!!!
اگر وہ مجرم ثابت ہوتا ہے، تو اسے سزا دیں، لیکن جنید حفیظ کے کیس میں بحث تو مکمل کرو، قانونی تقاضے تو پورے کرو، اسے امید و مایوسی کے بیچ لٹکا کر تو نہ رکھو___!!!
ریکارڈ کی درستگی کی ضمن میں یہ ذکر کر دوں، کہ جنید کے خلاف بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں ابتدائی محاذ بنانے والو میں سر فہرست اسلامی جمیت طلباء کے کارکن تھے اور بعد میں ان کے ساتھ تحریک تحفظ ناموس رسالت کے کارکن بھی مل گئے تھے