اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804 عمران خان کے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب لڑنے کے اعلان بعد یونیورسٹی کو لوگوں کی جانب سے بڑی تعداد میں غصے بھری ای میلز ملنی شروع ہوگئیں۔ ناقدین جہاں اپنی ای میلز میں یونیورسٹی انتظامیہ کو بانی پی ٹی آئی کے شدت پسند طالبان کی حمایت اور خواتین دشمنی بارے بیانات و اقدامات سے آگاہ کر رہے ہیں بلکہ یونیورسٹی کو موصول ہونے والی متعدد ای میلز میں ناقدین کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی قیادت، اخلاقی رویے اور انسانی حقوق کے لیے احترام کے اعلیٰ ترین معیار کو برقرار رکھنے کی ایک طویل تاریخ ہے جب کہ عمران خان کا عوامی اور ذاتی ریکارڈ جامعہ کی ان اقدار سے متصادم نظر آتا ہے۔
یونیورسٹی کو موصول ہونے والی تنقیدی ای میلز نے عمران خان کی امیدواری کے حوالے سے تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عمران خان کے ماضی کے ریکارڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیاست دانوں کو جامعہ کا چانسلر بننے سے روکنے کی خواہش کو دیکھیں تو عمران خان کے پاس اپنی مادر علمی آکسفورڈ کا چانسلر بننے کے امکانات بہت کم ہیں۔ کیونکہ عمران خان ماضی میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کیلئے مدت پوری ہونے سے قبل بریڈ فورڈ یونیورسٹی کی چانسلر شپ سے استعفی دے چکے ہیں کیونکہ طلباء عمران خان کے یونیورسٹی کو وقت نہ دینے پر شدید نالاں تھے تاہم اب حالات دیکھیں تو وہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ مصروف ہیں، ایک تو عمران خان جیل میں ہیں دوسرا سیاسی مہم چلانے کی وجہ سے وہ آکسفورڈ کے چانسلر کے عہدے کیلئے موزوں نہیں رہیں گے کیونکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے کیلئے وضع کردہ ذمہ داریوں میں لکھا ہے کہ چانسلر کو ہمہ وقت پورے سال کے دوران قابل رسائی رہنا ہوگا۔
تاہم عمران خان کے معاملے میں دیکھیں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جیل سے باہر آنے والے ہیں یا نہیں، مصروفیت کی بات تو الگ رہی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا عہدہ خالصتاً رسمی نوعیت کا ہے اور کئی اہم تقاریب کی صدارت کا کام چانسلر ہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چانسلر کو ملکی و غیر ملکی تقریبات میں یونیورسٹی کے سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے علاوہ مشاورتی اور فنڈ ریزنگ کے کام بھی کرنا ہوتے ہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان ایک آزاد شخص ہیں تو ایسی صورت میں بھی وہ یونیورسٹی کیلئے ضروری کام نہیں کر پائیں گے۔ غور کریں تو بحیثیت سیاست دان اور یونیورسٹی چانسلر ان کے کام کاج میں تضادات پیدا ہوں گے۔ ویسے بھی اس مرتبہ یونیورسٹی نے اپنی پالیسی تبدیل کر دی ہے جس سے لوگ یہ اندازے ہی لگا رہے ہیں کہ کون الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس سے قبل، ایک سابق طالب ووٹ کے اہل 50 ممبران کی حمایت سے نامزدگی حاصل کرکے امیدوار بن سکتا تھا۔ لیکن اب نئے ضابطوں کے تحت جب بھی کوئی امیدوار الیکشن لڑنے کیلئے درخواست دے گا تو پہلے اس کے نام کا جائزہ چانسلر کے انتخابات کیلئے مقرر کردہ الیکشن کمیٹی لے گی جو طے کرے گی کہ آیا امیدوار ضوابط کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں؟ اور اس کا نام فہرست میں شامل کیا جائے یا فہرست سے باہر رکھا جائے۔
فہرست سے خارج کرنے والا معیار عمران خان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اس وقت سرونگ رکن ہیں اور نہ ہی منتخب لیجسلیچر کیلئے منتخب امیدوار۔ یہ وہ واحد شق ہے جو عمران خان کو الیکشن سے باہر رکھ سکتی ہے۔ بصورت دیگر بھی دیکھیں تو آکسفورڈ یونیورسٹی سیاستدانوں کو چانسلر کے عہدے کیلئے الیکشن لڑنے سے روکتی ہے۔ رواں سال اپریل میں یونیورسٹی کے رجسٹرار کے ذریعہ آکسفورڈ کے ماہرین تعلیم کو بھیجی گئی ایک ای میل میں بتایا گیا تھا کہ ارکان اسمبلی یا سیاست میں سرگرم افراد کو اگلا چانسلر بننے سے روکا جائے گا۔ جس کے بعد عمران خان کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن کیلئے اہلیت ہی خطرے میں پڑ گئی ہے۔